Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

القدس اور فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی پر سودے بازی نہیں

 سعید الفرحہ الغامدی ۔ المدینہ
اسرائیل عربو ں کی بھول چوک پر انحصار کرکے کرتب دکھاتا رہتا ہے۔ اسرائیل نے عربوں کی ا س کمزوری سے بڑا فائدہ اٹھایا ہے تاہم وقت گزرنے کے باوجود مسئلہ فلسطین نہ تو فراموش کیا جاسکا ہے اور نہ فراموش کیا جاسکے گا۔ اسرائیل نے فلسطینی علاقوں کی لوٹ مار، مکانات منہدم کرنے، فلسطینیوں کو گھر سے بے گھر کرنے اور خیموں میں فلسطینیوں کی آبادی بڑھانے اور انکی رہائش کے حالات بد سے بدتر بنانے کے سلسلے میں کافی کچھ کردیا ہے۔مسئلہ فلسطین کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اہل فلسطین کی یادداشت زندہ ہے مری نہیں۔ صہیونی سمجھتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کو زندہ درگور کیا جاسکے گا۔ فلسطینی کاز ہر فلسطینی اور ہر عرب شہری کے یہاں بطور امانت محفوظ ہے۔ نسل در نسل یہ قضیہ زندہ رکھا گیا ہے رکھا جائیگا۔ جب تک حقداروں کو انکا حق نہیں ملے گا تب تک یہ مسئلہ برقرار رہے گا۔ تاریخ نے ہمیں یہی سکھایا ہے۔ القدس کی چٹانوںاور سرزمین فلسطین پر جنم لینے والے ہر عرب شہری کے ذہنوں پر مسئلہ فلسطین نقش ہے۔ بیرون فلسطین آباد فلسطینی بھی اسے جی جان سے لگائے ہوئے ہیں۔ پوری عرب دنیا کا ضمیر اس حوالے سے زندہ تھا، ہے اور رہیگا۔ القدس قبلہ اول ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اسراءکے سفر پر پہنچے تھے اور جہاں سے انہوں نے معراج کا سفرطے کیا تھا۔
میں نے اپنے ایک کالم میں تحریر کیا تھا کہ صدی کا سودا اس لئے ناکام ہوگا کیونکہ اسرائیل امن کا خواہاں نہیں۔ امریکی سفارتخانے کو القدس منتقل کرنے کے اقدام نے ٹرمپ اور صہیونیو ںکی تمام اسکیموں کو فیل کردیا۔ وہ چاہتے تھے کہ مسئلہ فلسطین کو فراموش کردیا جائے ۔ عرب شکست تسلیم کرلیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دو ریاستی فارمولے کے تحت ہی یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ اسکے لئے ضروری ہے کہ فلسطینی ریاست کا دارالحکومت مانا جائے اور فلسطینی پناہ گزینوں کو وطن واپسی کا حق دیا جائے۔ ان سب سے اہم یہ ہے کہ فلسطینی عوام اس حل کو قبول بھی کریں۔
خادم حرمین شریفین شاہ سلمان کی زیر قیادت سعودی عرب نے یہ کہہ کر شک کو یقین میں تبدیل کردیا کہ صدی کا سودا دو ریاستی حل ، القدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنائے اور پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا حق تسلیم کئے بغیر انجام پذیر نہیں ہوگا۔ مسئلہ فلسطین کو یادداشت سے محو کرنے کی بنیاد پر اسرائیل اور عرب قوم کے دشمن جو جوا بھی کھیلیں گے اس میں ناکام ہونگے۔ اگر متعلقہ فریق مسئلے کے حل کے سلسلے میں سنجیدہ ہوں تو شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کا پیش کردہ وہ امن فارمولا آج بھی زندہ ہے جسے عرب ممالک نے قبول کرلیا تھا۔ یہی مشرق وسطیٰ میں امن واستحکام اور مسئلے کے حل کا صحیح راستہ ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: