Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حج کا محمل اور تھیلی

محمد بشیر کردی ۔ المدینہ
مملوکی سلاطین نے حج کے حوالے سے 2یادگار رسمیں چھوڑی ہیں۔ ان میں سے ایک کو شامی حج محمل اور دوسری کو مصری حج محمل کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ اب ان رسموں کے حوالے سے بعض یادگاری نمونے باقی بچے ہیں۔ یہ دمشق اور قاہرہ کے عجائب گھروں میں محفوظ ہیں۔ چوکور لکڑی محفوظ ہے۔ چوکور لکڑی کی شکل کی ایک نشست اور اس پر ھرم نما سیاہ ریشم کا کپڑا پڑا ہوا ہے۔ سونے کے رنگ کے نقش و نگار بنے ہوئے ہیں۔اسے اونٹ کی پشت پر رکھا جاتا تھا۔ دو چوکیدار ہمراہ چلتے۔ انکے ہاتھوں میں شمع ہوتی تھی۔
فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے دمشق یا قاہرہ سے عازمین کا کاررواں نکلتا تو اسکے ہمراہ محمل الحج بھی ہوتا۔ یہ اسو قت فریضہ حج کی ادائیگی کے حوالے سے ادا کی جانے والی نمایاں ترین رسم تھی۔ حجاج کرام غیر محفوظ راستوں اور گزر گاہوں سے سفر کرتے۔ اس وقت نہ طیارے تھے نہ گاڑیاں اور نہ ہی سیاسی سرحدیں ہوا کرتی تھیں۔ اس وقت دمشق سے مدینہ منورہ تک کا راستہ مختصر ترین مانا جاتا تھا۔ اس سے قافلے آتے جاتے رہتے تھے۔ یہ راستہ خطرات سے بھی گھرا ہوا تھا۔ گزرنے والے قافلوںکو لوٹ لیا جاتا تھا۔ اسلامی ادوار کے حکام سلطنت عثمانیہ کے زمانے تک ان راستوں کے امن و امان کے ذمہ دار تھے۔ انہوں نے مذکورہ راستے پر جگہ جگہ قلعے اور چوکیاں قائم کررکھی تھیں۔
شامی حج شاہراہ کی تاریخ شام میں اسلام کی اشاعت کے ابتدائی ایام سے جڑی ہوئی ہے۔ آگے چل کر ایشیائے کوچک اور آس پاس کے علاقوں میں بھی اسلام پھیل گیا تھا۔ یہ شاہراہ سلطنت عثمانیہ کے فرمانروا کیلئے بڑی اہمیت رکھتی تھی۔ وہ شامی محمل کیلئے خصوصی انتظام کرتے۔ محمل کے پیچھے حجاج چلتے۔ کئی ہفتے میں یہ سفر مکمل ہوتا۔ اسکا امیر حج مقرر ہوتا۔ اسکی شروعات 1708ءمیں دمشق کے گورنر نے کی تھی۔ سلطنت عثمانیہ کے عہدیدار محمل دمشق میں شریک ہوتے۔ انہیں حجاج کے امور کی نگرانی کیلئے استنبول سے بھیجا جاتا۔ کارواں میں قاضی، موذن اور امام شریک ہوتے۔ امیر حج کی اہم ترین ذمہ داری کارواں کو بادیہ نشینوں کے حملوں سے تحفظ فراہم کرناتھا۔ بادیہ نشین حملے کرکے حجاج سے نقدی اور کھانے پینے کا سامان لوٹ لیتے تھے۔ بعض اوقات تجارتی سامان پر بھی ہاتھ صاف کردیتے تھے۔
کبھی کبھی بادیہ نشین نہ صرف یہ کہ قافلوں کو لوٹتے بلکہ حجاج کو قتل تک کردیتے تھے۔ بانی مملکت شاہ عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے حج شاہراہوں کو مامون و محفوظ بنایا۔ پھر انکے جانشین بیٹوں نے مملکت کے مشرق سے لیکر مغرب اور شمال سے لیکر جنوب تک کے تمام راستوں میں امن و امان قائم کیا۔ بری، بحری اور فضائی راستوں کا جال قائم کیا۔ ضیوف الرحمن سیکڑوں کے بجائے لاکھو ںمیں آنے لگے۔ ایسا لگتا ہے کہ بابائے انبیاءحضرت ابراہیم علیہ السلام نے حرم شریف کے حوالے سے امن و امان اور کھانے پینے کی اشیاءمیں خیر و برکت کی بابت جو دعا کی تھی اللہ تعالیٰ نے اسے بانی مملکت شاہ عبدالعزیز کے ہاتھوں پورا کرادیا۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: