Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سلامتی کونسل کی لاپروائی

سعودی عرب سے شائع ہونےوالے اخبار ”عکاظ“ کا اداریہ نذر قارئین ہے
بین الاقوامی قانونی نظام دنیا بھر کے تمام ممالک کیلئے سائبان کا درجہ رکھتا ہے۔ بین الاقوامی تنظیمیں اور ادارے جو کچھ کریں اصولی بات یہ ہے کہ ان کا مطمح نظر قانونی بنیادوں کے مطابق حق و انصاف کی حکمرانی کا ہو۔ کوئی بھی ملک اس سے سرمو انحراف کا مجاز نہ ہو۔ یہی وہ اثاث ہے جس کی بنیاد پر عالمی امن و استحکام کے طلب گار ممالک اقوام متحدہ کے جملہ فیصلوں کے آگے جھکتے ہیں۔ عالمی اداروں کا فرض ہے کہ وہ کسی بھی خارجی فریق کے ساتھ اپنے قانونی نظام کے سوا کسی اور بنیاد پر معاملہ نہ کریں۔ایسے کسی بھی گروہ کو جو قانونی ادارے کو یرغمال بنالے اقوام متحدہ کوئی معاملہ نہ کرے۔
اس کی نمایاں ترین مثال یمن میں عرب اتحاد کی ہے۔ عرب اتحاد نے بین الاقوامی برادری کی سرپرستی میں یمن کی آئینی حکومت کی تائید و حمایت کا فیصلہ کیا۔ یمن میں فوجی کارروائی اس وقت تک نہیں کی تاوقتیکہ سلامتی کونسل نے اسکی تائید نہ کردی اور حوثی باغیوں کے تصرفات کو جرم قرار نہیں دیدیا۔
توقع یہ تھی کہ اقوام متحدہ اپنے فیصلوں کی کسی بھی خلاف ورزی کا نوٹس لے گی۔ اپنے فیصلے نافد کرانے کیلئے عزم اور حوصلے کا مظاہرہ کریگی مگر دیکھنے میں یہ آیا کہ سلامتی کونسل اپنے فیصلوں کی کھلی خلاف ورزیوں کو تماش بین کی طرح دیکھتی رہی۔ باغیوں کو بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسلحہ فراہم کیا گیا۔ سلامتی کونسل نے کچھ نہیں کیا۔ اس صورتحال نے حوثیوں کو یمن کے شہریوں پر مسلسل حملوں ، مشرق وسطیٰ کے علاقائی استحکام کو خطرات سے دوچار کرنے ، جہاز رانی خصوصاً آبنائے باب المندب سے گزرنے والے جہازوں کی سلامتی کو خطرات لاحق کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اسی تناظر میں اقوام متحدہ میں سعودی سفارتی مشن نے سلامتی کونسل کے نام مکتوب ارسال کیاجس میں واضح کیا گیا کہ حوثی باغیوں کے جرائم کو کنٹرول کرنا اشد ضروری ہوگیا ہے کیونکہ وہ اقوام متحدہ کی لاپروائی سے مسلسل ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: