ایران اور ترکی ۔۔۔اقتصادی تباہی کے دوراہے پر
24اگست 2018ء جمعہ کو شائع ہونیوالے سعودی اخبارالاقتصادیہ کا اداریہ نذر قارئین
ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کے امریکی فیصلے کے بہت سارے محرکات ہیں۔ نمایاں ترین محرک یہ ہے کہ امریکہ کی نئی حکومت کے تصور کے مطابق یہ فیصلہ مشرق وسطیٰ کے مسائل کے حل کیلئے ناگزیر ہے۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان والٹن نے تازہ ترین انٹر ویو میں یہی بات کہی کہ موجودہ امریکی حکومت اپنے تصور کے مطابق مشرق وسطیٰ میں توازن بحال کرسکتی ہے۔ دراصل ایران کے ساتھ لاپروائی کے مظاہرے ، خصوصاً 2005ء کے دوران ایٹمی معاہدے نے ایران کو مشرق وسطیٰ میں خطرناک مداخلت کا موقع فراہم کردیا۔ ایران نے لبنان سے لیکر یمن تک پورے علاقے کے امن و امان کو درہم برہم کردیا۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک سعودی عرب کی قیادت میں ایران کی تیار کردہ ملیشیاؤں سے ٹکر لینے پر بادل ناخواستہ مجبور ہوگئے۔ شاہ سلمان اور ان کے ولیعہد شہزادہ محمد نے جرأت مندانہ فیصلہ کرکے حوثیوں کو لگام لگانے کا پروگرام بنایا ۔ حوثی نہ صرف یہ کہ یمن پر قابض ہوئے بلکہ انہوں نے با ب المندب میں عالمی معیشت کیلئے زبردست بحران کھڑا کردیا۔ اچھی بات یہ ہے کہ موجودہ امریکی حکومت کو ایران کے پیدا کردہ خطرات کے حوالے سے سعودی موقف کی اہمیت کا ادراک ہوچکا ہے۔ سعودی عرب بہت پہلے سے اپنے اس موقف کا اظہار کرتا رہا ہے۔
ایران سے اب ترکی کا رخ کرتے ہیں ۔ ترکی رجب طیب اردگان کے فیصلوں کے نتائج بھگتنے لگا ہے۔ اردگان ویسے ہی فیصلے کرنے لگے ہیں جیسا کہ ایران میں ملاؤں کی حکومت کرتی رہی ہے۔ وہ مشرق وسطیٰ کے امور میں مداخلت کررہے ہیں ، وہ قانون کی باغی تنظیموں اور حکومتوں کی سرپرستی کررہے ہیں ۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر کے بقول رجب طیب اردگان اپنے طور طریقے بدل کر ملکی بحران ختم کرسکتے ہیں۔ امریکی قومی مشیر نے یہ بھی باور کرایاکہ قطر کے خزانے ترکی کے معاشی نظام کو سہارا نہیں دے سکتے۔قطر کی مالی مدد سے ترکی لیرے کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔صورتحال ایسی ہے کہ جتنی مدد آئے گی وہ آگ کی بھٹی میں جلتی چلی جائے گی۔
ان سارے مسائل اور حالات سے متعلق سعودی عرب کا موقف اس کا اپنا موقف ہے۔ وہ مشرق وسطیٰ کے مسائل مکالمے کے ذریعے حل کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ مشکل یہ پیش آرہی ہے کہ خطے کے کئی ممالک ایرانی حکومت کے خوابوں اور ترکی کے اقتصادی مسائل کے اسیر بن چکے ہیں۔ انفرادی مفادات کے چکر میں قومی مفادات کو قربان کیا جارہا ہے۔