Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ ہے تبدیلی

***شہزاد اعظم***
ہم اس امر کے قائل ہیں کہ چھوٹے ہمیشہ غلط نہیں کہتے اور بڑے ہمیشہ صحیح کہتے ہیں۔ ہمیں اسکول میں پہلے روز ہی بتا دیا گیا تھا کہ اپنی زبان سے اول فول نہیں نکالنے چاہئیں بلکہ جب کہو، اچھی بات کہو، سوچ سمجھ کر کہو۔ ہماری آئیڈیل ٹیچر مس شکیلہ اس معاملے میں بہت ہی سخت تھیں۔وہ جب کچی جماعت کی کلاس ٹیچر تھیں اس وقت بھی وہ اصول و قواعد کی سختی سے پابندی کر تی تھیں۔ ہم اس وقت توتلے تھے اور ہمارے ساتھ بیٹھنے والاشوکی نامی لڑکا ’’ٹوٹلا‘‘ تھا۔ ہمیں مس شکیلہ توتلا اس لئے کہا کرتی تھیں کیونکہ ہم ہر لفظ میں حرف ’’ت‘‘ کا غیر ضروری استعمال کرنے کے درپے رہتے تھے جیسے ہم اپنے  ہم جماعت شوکی سے پوچھتے کہ کیا تم نے کل کا کام لکھ لیا ہے تو ہمارے الفاظ یوں ہوتے ’’یار! تیا تم نے تل تا تام لتھ لیا ہے؟‘‘ مس شکیلہ ، شوکی کو ’’ٹوٹلا‘‘ کہتی تھیں کیونکہ وہ ہر لفظ میں حرف’’ٹ‘‘ کا غیر ضروری استعمال کرنا گویا اپنا پیدائشی حق سمجھتا تھا۔ اگر اُسے کام کے حوالے سے وہی سوال ہم سے کرنا ہوتا تو اس کے ا لفاظ یہ ہوتے کہ’’یار! ٹیا ٹم نے ٹل ٹا ٹام لٹھ لیا ہے ؟‘‘ہماری اس تتلاہٹ اور شوکی کی ٹٹلاہٹ کے باوجود مس شکیلہ ہمیں کہتی تھیں کہ جو بھی بات کہو، سوچ سمجھ کو کہواور اول فول بولنے یا بکنے سے گریز کرو کیونکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے منہ سے جو کچھ کہتا ہے وہ بات پوری ہو جاتی ہے۔اگر ہم سے کبھی کبھار کوئی بے تکی بات منہ سے نکل جاتی تو مس شکیلہ ہمیں بے انتہاء لتاڑتیں اورایسی کھری کھری سناتیںکہ ہمیں اپنے کانوں سے دھواں نکلنے شدید احساس ہونے لگتا۔مس شکیلہ کی نگرانی میں پروان چڑھنے کا ایک نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ہمارے سامنے جب بھی کوئی مسئلہ سر ابھارتا تو ہم فوراً اپنا احتساب شروع کر دیتے اور سوچنے لگتے کہ آخرایسی کون سی بات ہے جو ہمارے منہ سے نکلی اور اس کا انجام اس مسئلے کی شکل میں ہمارے سامنے آگیا۔ہمیں اب تک کی زندگی میں متعدد مرتبہ اس امر کا تجربہ ہوا کہ منہ سے نکالی گئی الٹی سیدھی باتیں پوری ہوگئیں۔ مثلاً شوکی اپنی اماں کا کہنا نہیں مانتا تھا، اس کی ماں تنگ آ کر کہتیں کہ تو میرا کہا تو مانتا نہیں مگر دیکھ لیجئے ، اپنی جورو کا غلام بن کر رہے گا، اس کے اشاروں پر ناچے گا، اس کی للو پتو کرے گا، اس کی ہاں میں ہاں ملائے گا، وہ غلط بھی کہے گی تو تُومان لے گا ۔ پھر یوں ہوا کہ شوکی جب 25سال 5ماہ اور 15دن کا ہوا تو اس کی شادی ہوگئی۔ ہم 6ماہ کے بعد اس کے گھر ملنے کے لئے گئے تو زمینی حقائق دیکھ کر حیران رہ گئے کیونکہ ہم نے 10منٹ وہاں گزارے اور اس دوران جو کچھ دیکھا وہ سب کا سب وہی تھا جو شوکی کی اماں کہا کرتی تھیں۔ہم یہاں شوکی سے ملاقات کا مختصر احوال  اور حقیقت حال بیان کر دیتے ہیں کہ ہم نے شوکی کے گھر کے دروازے پر دستک دی، وہ خود باہر آیا۔ ہمیں اندر بلایا اور بیٹھک کی جانب لے گیا۔ ابھی ہم کمرے میں پوری طرح داخل بھی نہیں ہوئے تھے کہ دوسرے کمرے سے گرجدار زنانہ آواز آئی کہ ’’شوکی! کون آیا ہے ؟ شوکی نے کہا کہ میرے بچپن کے دوست ہیں۔ خاتون نے کہا ٹھیک ہے ،ان سے کہہ دو کہ وہ صرف 10منٹ بیٹھیں کیونکہ ہمیں واک کے لئے جانا ہے ۔پھر آواز آئی ، شوکی یہ لیمو پانی اپنے دوست کے لئے لے جائو۔ شوکی نے ہمیںلا کر لیمو پانی کا گلاس تھما دیا۔ جیسے ہی 10منٹ ہوئے، شوکی نے کہا کہ ٹھیک ہے ، اب ہمیں جانا ہے ۔ پھر ملاقات ہوگی ۔ یہ حالت دیکھ کر ہم سمجھ گئے کہ اماں کا کہا پورا ہو گیا ۔ شوکی اپنی ’’جورو‘‘ کا غلام بنا اس کے اشاروں پر ناچ رہا ہے ۔
اس کے بعدکی زندگی میں بھی ہم نے یہ دیکھا کہ جو بات زباں زد عوام ہوئی، وہ جلد یا بدیرحقیقت بن کر سامنے آگئی۔اس کی بھی مثال پیش کی جا رہی ہے :
عمران خان نے سیاست شروع کی، کچھ نہیں ہوا۔ پھرکچھ عرصہ بھی گزر گیا، کچھ نہیں ہوا۔ وہ تقاریر کرتے رہے، عوام سنتے رہے، کچھ نہیں ہوا۔ پھر بجانے کس نے ا نہیں یہ بات بتا دی کہ تبدیلی آنے والی ہے۔ انہوں نے پر جلسے، ہر ملاقات، ہر بیٹھک، ہر اجلاس، ہر سیمینار، ہر لیکچر، ہر تقریراور ہر تحریر میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ تبدیلی آرہی ہے۔ انہوں نے جیسے ہی’’ تبدیلی ‘‘ کا ذکر کیا ، ہمارا ماتھا ٹھنکا ۔ دل دھڑکنے لگا اور ہم ڈرنے لگے کہ عمران خان نے جو اٹھتے بیٹھتے تبدیلی، تبدیلی کاذکر کرنا شروع کیا ہے ، اس سے سب کچھ بدل جائے گا۔ ساری بساط الٹ جائے گی۔ دھاروں کی سمتیں بدل جائیں گی، سیاہی اور سفیدی اپنی جگہیں بدل لیں گی۔ ہماری پہنچ اتنی نہیں تھی کہ عمران خان سے ہم کلام ہو سکتے یا ان کو سمجھا سکتے کہ بھائی جان، تبدیلی ، تبدیلی کہتے رہتے ہیں یہ سوچیں اگر یہ بات پوری ہو گئی اور واقعی تبدیلی آ گئی توکیا ہوگا؟پھر یوں ہوا کہ عمران خان نے سیکڑوں ہزار افراد کی موجودگی میں ببانگ دہل واشگاف الفاظ میں کہہ ڈالا کہ ’’تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ چکی ہے۔‘‘پھر انتخابات ہوگئے، بساط الٹ گئی، دہائیوں سے ایک ہی سمت میں بہنے والے دھاروںنے رخ بدل لئے، اب تو جس کو دیکھو وہ یہی کہتا سنائی دیتا ہے کہ تبدیلی آ گئی ہے۔حتیٰ کہ کراچی کی سروس روڈ پر موٹرسائیکل سوار رانگ سائیڈ سے سامنے آیا، دوسرا موٹر سائیکل سوار اسے دیکھ کرٹھہر گیا کہ وہ گزر جائے تو آگے جائے گا مگر یہ کیا، اس شخص نے قریب آ کر بائیک روکی، ہیلمٹ کا گلاس سرکایا، اپنی شکل دکھائی اور کہنے لگا ’’السلام علیکم! میں اس رانگ ڈرائیونگ پر معذرت خواہ ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا مگر دوسرے نوجوان نے چلا کر کہا’’تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ چکی ہے۔‘‘.............واقعی ! یہ ہے تبدیلی ۔کاش تبدیلی کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہے۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں