Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مدرسہ نبوت ، فقہائے سبعہ کا سرچشمہ

یہ وہ 7فقیہ تھے جنہیں صحابہ کرام  ؓ کا عہد تمام ہونے پرمدینہ منورہ کے مفتی ہونے کا اعزاز حاصل ہوا

     اس اسکول کو مسجد نبوی شریف کی علمی مجالس کے زریں سلسلے کا تاج کہہ سکتے ہیں ۔ مدینۃ الرسول میں آباد فقہائے سبعہ نے بھی بڑا نام کمایا۔ یہ وہ 7فقیہ تھے جنہیں صحابہ کرام  ؓ کا عہد تمام ہونے پرمدینہ منورہ کے مفتی ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مدینہ منورہ اسلام کا پہلا دارالخلافہ ہوا کرتا تھا۔ حضرت مالک بن انسؓ ان أئمہ اربعہ میں سے ایک ہیں جن کے اسلامی فہم پر اعتبار کرنے والے دنیا کے تمام علاقوں میں پائے جاتے ہیں ۔ امام مالک ، مدینہ منورہ کے باسی تھے، وہ امام دارالہجرہ کہلاتے تھے۔    
    علمائے اسلام کہتے ہیں کہ تمام مشہورفقہی مذاہب کا سرچشمہ مدینہ منورہ اور اس کے علماء ہیں۔ اسلامی علوم خصوصاً ،حدیث اور فقہ کی تدوین مدینہ منورہ میں ہوئی۔
    احادیث مبارکہ کے بیشتر راوی مدینہ منورہ کے باسی تھے۔صحابہ اور تابعین ہی حدیث کے اصل راوی مانے جاتے ہیں، مدینہ منورہ میں دارالفقہ، دارالقرآن، دارالحدیث ، دارالادب، قصوں ، کہانیوں اور تاریخی واقعات کے اسکول قائم ہوئے۔
    مدینہ منورہ عباسی دور تک اسلامی ثقافت کی ترویج و اشاعت میں مینارہ ٔ نور کا کام انجام دیتا رہا۔ مدینہ منورہ نے اسلامی اور انسانی علوم کے فروغ میں حصہ لیا ، اسلامی ثقافت اور انسانی ثقافت پر گہرا اثر ڈالا۔ عباسی عہد میں مسلمانوں نے نت نئی ثقافتوں اور تہذیبوں کا تعارف حاصل کیا۔ مدنی ثقافت نے ہی اس کی راہ ہموار کی تھی۔ آگے چل کر علماء کی سرگرمیوں اور افکار و خیالات کے تبادلے نے کئی صدیوں پر محیط اسلامی ثقافت کے پھیلاؤ کا دروازہ کھولا۔ اسلامی ثقافت کے فروغ کی تحریک کی فصل مدینہ منورہ کے ثقافتی اسکول میں بوئی گئی تھی۔ نئی تحریک نے مسلم شہروں اور علاقوں کی ثقافتی تشکیل پر اثر ڈالا۔ نئی تحریک نے منحرف جماعتوں اور فرقوں کو لگام لگائی۔مدینہ منورہ کے اسکول میں پروان چڑھنے والے فقہا نے منحرف تحریکوں اور جماعتوں کا طوفان روکا۔
    جدید اسلامی علمی تحریک نے انسانی اور طبعی علوم میں بڑے بڑے انکشاف کئے۔ اس دورکے زیادہ تر انکشافات اورایجادات کا سہرا اسی تحریک کے سرجاتاہے۔ اس اسکول کے اثرات عصر حاضر تک پھیلے ہوئے ہیں۔زمینی حقیقت یہی ہے کہ بنی نوع انسان کو علوم سے آراستہ کرنے اور انہیں جہالت کی تاریکیوں سے علوم کی روشنی اور ترقی کے دور میں داخل کرنے میں مسلم سائنسدانوں کا کردار کلیدی ہے۔
    مدینہ منورہ نجی اور سرکاری کتب خانوں سے آباد ہے۔ مدینہ منورہ کے علماء اور طلبہ نے مختلف علوم میں بے شمار قلمی نسخوں کا خزانہ چھوڑا ہے۔ مدینہ منورہ نے ہر دور میںا سلامی علوم کی ترویج و اشاعت میں تعاون دیا۔ ان دنوں بھی یہ کام کررہا ہے۔ آئندہ بھی ان شاء اللہ انجام دیتا رہیگا۔ تاریخ کے کسی بھی دور میں مدینہ منورہ کا علم نواز کردار معطل نہیں ہوا۔ عباسی خلافت کے زمانے میں مدینہ منورہ  علمی کردار پوری آن بان سے ادا کرتا رہا۔
    تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ عباسی دور میں مدینہ منورہ کے علماء، مصنفین اور محققین نے تصنیف و تالیف ، تحقیق و تدریس اور علوم و معارف کی تجدید میں نہایت شاندار کردار ادا کیا۔ مملوکی دور کو بھی مدینہ منورہ نے علمی خدمات سے نوازا۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مملوکی دور کے علمی کارنامے مدینہ منورہ اسکول کاایکسٹینشن تھے تو مبالغہ ہوگا اور نہ غلط بیانی۔ اُس وقت ثقافتی تحریک کی نمایاں ترین علامت مسجد نبوی شریف کی علمی مجالس تھیں۔
    اس زمانے میں مسجد نبوی شریف کے علاوہ مدرسے بھی تھے۔ رباطوں اور گھروں میں مذاکرہ کی مجلسیں بھی منعقد ہوا کرتی تھیں۔ مکاتب میں ابتدائی تعلیم کا بھی رواج تھا۔ حالیہ دور میں بھی مدینہ منورہ علمی و ثقافتی مرکز ہے۔اسلامی ثقافت کے منظر نامے میں اس کا وجود پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔ مدینہ منورہ آج بھی زائرین کے اشتیاق اور دنیا بھر کے انسانوں کی چاہت کی بدولت فقہ، حساب، طب، فلکیات اورفلسفیانہ علوم کا مرکز ہے۔مسلم دنیا کے سیکڑوں علماء ہر دور میں ہجرت کرکے مدینہ منورہ میں رہائش اختیار کرتے رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں ہزاروں طلباء فیضیاب ہوتے رہے۔ حجاز کے طلبہ ان کے فیض یافتگان میں شامل ہیں۔ مدینہ منورہ میں علمی وثقافتی تحریک ایک زریںسلسلے سے مربوط ہے۔ اسکی آبیاری کرنیوالے وہ علماء وہ فقہاء و ہ محدثین،وہ مورخین ، وہ اطباء ، وہ جغرافیہ وہ جدید علوم کے بحر ذخار ہیں جو مدینہ منورہ میں رہائش کیلئے اپنے وطن ، اہل و عیال تک کو خیر باد کہہ کر آتے رہے ہیں ۔ بعض لوگ، بعض علماء زندگی بھر اور کچھ چند برسوں اور چند مہینوں کیلئے مدینہ منورہ آکر رہائش اختیار کرتے رہے ہیں ۔ ان سب نے مدینہ منورہ کے ثقافتی ماحول کو بنانے سنوارنے اور اسے تازہ تر رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔آنیوالے مسجد نبوی شریف میں مجلسیں جماتے تھے۔ دنیا ئے اسلام کے گوشے گوشے سے آنیوالے علماء سے فیضیاب ہوئے۔ طلباء کو فیضیاب کرتے، تجدید و تخلیق کے دروازے کھولتے ، مختلف علوم و فنون کی گتھیاں سلجھاتے،نئے علمی و فکری منصوبوں پر مباحثے کرتے اور یہاں سے علوم و فنون اور تجربات کے خزانے سمیٹ کر اپنے اپنے وطن جاتے تھے۔اس طرح مدینہ منورہ عالمی اوپن یونیورسٹی بنا رہا ۔ سعودی عہد میں مدینہ منورہ نے قدیم و جدید کا حسین امتزاج پیدا کیا ۔بانیٔ مملکت نے مدینہ منورہ میں امن و استحکام پیدا کیا۔ ثقافتی زندگی کو بحال کیا۔ اس سے قبل ایک وقفہ ایسا گزرا کہ حج کے راستے مخدوش ہونے کے باعث مدینہ منورہ کے ثقافتی ماحول میں تعطل آگیاتھا۔

مزید پڑھیں:- - - - -دارالمدینہ میوزیم میں شہر مبارک کی مجسم عکاسی

شیئر: