Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بے صدائی

***جاوید اقبال***
بوڑھے تائیوانی سفیر تائی وے پنگ نے اپنی آنکھوں کے ڈھیلوں پر پڑے پپوٹوں کے غلاف کو زور لگاکر اوپر کھینچا اور مٹیالی گدلی آنکھوں سے مجھے گھورتے ہوئے بولا ’’مسٹر اقبال ! تائیوان تو ایک ذرہ تھا۔ اسے آفتاب ہمارے تارکین وطن نے کردیا۔‘‘ ریاض کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں تائیوان کی ’’ یک ملکی نمائش‘‘ لگی تھی اور میں معمر سفیر کے سامنے بیٹھا سعودی ٹی وی کے لیے اس کا انٹرویو کرتا تھا۔
ذرا تفصیل میں جائیں مسٹر ایمبیسیڈر! ’’میں نے کہا۔ ’’ یہ ستمبر 1949ء کے اواخر کی بات ہے۔ ماؤزے تنگ کی حملہ آور سرخ فوج شنگھائی پر قبضے کے بعد طوفان کی طرح مشرقی ساحلی قصبے کو انزو کی طرف بڑھ رہی تھی اور جزریسموچیانگ کائی شیک اور ان کی شکست خوردہ بچی کھچی فوج وہیں پناہ گزین تھی۔ صورتحال کو مزید نازک ہوتے دیکھ کر ان لوگوں نے کوانزو کے دلدلی ساحل کو پار کیا اور کشتیاں آبنائے میں ڈال دیں۔ میں بھی ان میں شامل تھا۔ پار فارموسا کا جزیرہ تھا جہاں ہم ہزاروں پہنچ گئے۔ نئی ویران جگہ ،بے سرو سامانی ، مختصر مسکن ! ہر چیز کا نیا آغاز تھا لیکن ہمارے عسکری رہنما جنرل چیانگ کائی شیک نے ہم میں نئی روح پھونک دی۔ ہم نے دھان کھیتوں میں بویا اور ماہی گیری شروع کی۔ اس دوران امریکہ نے ہمارے طلباء کو اعلی تعلیم دینے کی پیشکش کردی۔ ہم نے ہزاروں کی تعداد میں اپنے بچے واشنگٹن پہنچا دیئے۔ نصف دہائی گزری اور ایک نوجوان تعلیم یافتہ نسل ہمارے ساحلوں پر اتر آئی۔ ہزاروں دوسرے تارکین وطن ہوکر امریکہ میں ہی برسرروزگار ہوگئے اور اپنے ننھے سے وطن کا خزانہ بھرنے لگے۔ ان سب کو ہم نے احترام دیا اور اپنی پارلیمان کومنتانگ میں ان کے لیے نشستیں مختص کردیں۔ فارموسا کو جمہوریہ تائیوان کا نام دے دیا گیا۔ ماحول تبدیل ہوتا گیا۔ ان تارکین وطن نے اپنی ننھی آماجگاہ میں نئی ٹیکنالوجی متعارف کرائی۔ سمندر میں سیپیاں بوئیں اور موتی حاصل کئے۔ صرف 2 دہائیوں میں جمہوریہ تائیوان کوریا اور جاپان کی صف میں کھڑا ایشیائی ٹائیگر بن چکا تھا۔ اگر ہمارے تارکین وطن نہ ہوتے تو آج بھی تائیوانی شہری اپنے دسترخوان پر چاول اور مچھلی کی قابیں رکھے عسرت میں زندگی بسر کررہے ہوتے۔‘‘
سانحوردہ سفیر کی آواز مشینوں کے شور میں دب گئی۔ نمائش بھی کیا حیران کن عناصر تائیوان سے اٹھائے لیے آئی تھی۔ ایک بیٹھے اونٹ کے حجم کے برابر ایک مشین تھی۔ ایک طرف سے دانہ دار پولی پروپلین اندر ڈالا جارہا تھا اور دو سری طرف سے بجلی کی سرعت سے تھیلے باہر آرہے تھے۔ ایک اور مشین اسی خام مواد سے برتن بنارہی تھی۔ ایک اور ننھی سی مشین سرنجیں نکال رہی تھی ۔ نمائش دیکھنے کے لیے گئے زائرین کے جبڑے حیرت سے لٹکے پڑے تھے۔ 1950ء کی دہائی کا ویران جزیرہ  ......  صرف 20 برس بعد ایشین ٹائیگر !  تارکین وطن  !  تارکین وطن  !
مجھے برسوں قبل ریاض میں انعقاد پذیر ہونے والی تائیوان کی ایک ملکی نمائش اس لیے یا د آئی کہ گزشتہ ہفتے ایک خبر نے مجھے آزردہ کردیا ۔ہمارے وطن کی حزب اختلاف کے اتحاد نے فیصلہ کیا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنی پارلیمان میں رائے دہی کے حق سے محروم رکھا جائے۔ گویا کئی سمندروں پار سے ترسیل زر کرنے والے حب الوطنی کے یہ پیکر سدا دبیل رہے اور دبیل رہیں گے۔ ریاض میں گزشتہ 4 دہائیوں سے مقیم صنعتکار اور تاجر محمد اصضر قریشی بھی یا دآئے۔ پاکستان کی ایک معروف سیاسی جماعت کے سعودی عرب میں کوآرڈینیٹر رہے ہیں۔ جب کبھی اس جماعت کا کوئی رہنما سعودی دارالحکومت آتا تو اصغر قریشی بڑے تزک و احتشام سے اپنے وسیع وعریض گھر میں اس کا استقبال کرتے۔ اس کے اعزاز میں جلسہ بھی منعقد کیا جاتا۔ دیگر سیاسی جماعتوںکے ریاض میں مقیم نمائندے زور خطابت دکھاتے، وطن کے لیے رطب اللسان ہوتے اور پھر اس سب کے اختتام پر میزبان کی طرف سے ایک پرتکلف عشائیہ دیا جاتا۔ انہی برسوں میں محمد اصغر قریشی کے اپنی جماعت کے ایک معروف رہنما سے دوستانہ تعلقات خاصے گہرے ہوگئے۔ موصوف جب بھی ریاض آتے قریشی ہاؤس میں ان شاہانہ استقبال کیا جاتا اور پرتکلف عشائیوں میں مہمان خصوصی بنانے کے علاوہ میزبان اپنے پاکستان سے آئے وی آئی پی کو اپنی جیب سے ہزاروں ریال کی خریداری بھی کراتے۔ دونوں تقریبا یک جان دو قالب ہوچکے تھے۔ اس دوران میں ہی میزبان کے دل میں یہ خواہش انگڑائی لینے لگی کہ اپنے مہمان کی نوازش خاص سے پاکستانی پارلیمان میں ایک نشست حاصل کی جائے۔ آرزو جائز تھی۔ اگلے دورے پر جب معزز رہنما پاکستان سے ریاض آئے تو ایک مختصر اجتماع میں شاید میزبان کی خواہش پر مہمان سے درخواست کردی گئی کہ وہ میزبان کے جذبہ حب الوطنی کو  مدنظر رکھتے ہوئے انہیں پارلیمانی انتخابات میں اپنی پارٹی کا ٹکٹ دلوادیں۔ معزز رہنما یہ سنتے ہی بھڑک گئے اور اپنی اصلی جون میں آگئے۔ ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر انتہائی خشک اور خشم آلود لہجے میں اپنی ابابیل نما مونچھوں پر ہاتھ پھیر کر بولے ’’تو کیا پھر ہم گھر بیٹھ جائیں؟‘‘ بات ختم ہوگئی۔ پھر کبھی نہ چھیڑی گئی۔
ان 80 لاکھ پاکستانی پردیسیوں کی بھی عجب کہانی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی مساعی سے منعقد شدہ اسلامی سربراہی کانفرنس کے بعد عالم عرب اور خصوصا مشرق وسطی نے اپنے دروازے پاکستانی افرادی قوت پر کھول دیے۔ شدت حرارت اور لو  کے بدن سوز تھپیڑے بھی ان پردیسیوں کی قوت کار کم نہ کرسکے۔ صحرا میں کرشمہ تعمیر کے مظاہر ابھرنے لگے۔ اس دوران میں ان تارکین وطن کی ترسیل زر سے پیچھے ملک کے مالی اعداد و شمار عروج آشنا ہوتے گئے۔ لیکن ایک المیہ تھا۔ جبکہ ان کی شبانہ روز مشقت صحرا میں نئے جہان تعمیر کررہی تھی تو اپنے ہی وطن میں ان کے لیے مسائل سر اٹھارہے تھے۔ اراضی پر غیر قانونی قبضے ہوتے رہے۔ متعلقین کے دلوں میں بغض اور حسد جاگزین ہوگئے۔ خاندان شکستگی کا شکار ہوگئے۔ وطن واپسی ہوتی تو ہوائی اڈوں پر حکومتی اہلکار انہیں نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر انہیں بے لباس کرنے پر تلے ہوتے۔ سالانہ اربوں ڈالر کی ترسیل زر کرنے والوں کی کوئی صدا نہ تھی۔ وطن سے دورے پر آنے والے ہر سیاستدان کو سینے سے لگاتے ، اسے مہمان خصوصی کا رتبہ دے کر کرسی جاہ پر بٹھاتے ، اسے سیف الملوک اور بلھے شاہ کا دلکش کلام سنا کر سماں باندھتے اور روانگی کے وقت بیش بہا تحائف ہمراہ کرتے لیکن مکرم ہستی وطن عزیز میں قدم رکھتے ہی ہر ایک کو، ہر چیز کو فراموش کردیتی۔ صرف اڑھائی ارب ڈالر سالانہ خیرات دینے والا امریکہ ہماری حکومتیں بھی اپنی منشا کے مطابق تبدیل کرتا ہے اور تارکین وطن 20 ارب ڈالر کی ترسیل کے باوجود اپنے دیس میں بے نوا پردیسی بنے ہیں۔ پس چہ باید کرد؟ حزب اختلاف نے ہمیں مسترد کردیا اگرچہ اس کے ہر رہنما کی رگوں میں تارکین وطن کا کھلایا نمک دوڑ رہا ہے۔ او پی ایف اور پنجاب اوور سیز کمیشن دونوں معطل ہیں۔ یہی وقت ہے کہ نئی حکومت کے سامنے اپنا مطالبہ رکھا جائے۔ سینیٹ ، قومی اسمبلی اور ہر صوبائی اسمبلی میں 6 , 6  نشستیں ان مساکین تارکین وطن کے لیے مختص کی جائیں۔ان پر منتخب ہونے والے ہمارے نمائندے پارلیمان میں صرف ہماری محرومیوں کی بات کریں۔ وطن میں ہمارے خاندانوں کی بے نوائی کا سوال اٹھائیں ! کل 36 نشستیں ! خوشحالی ، سکون اور پیشرفت میں ایک پاکستان دس تائیوانوں کی برابری کرے گا۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں