اُم مزمل۔جدہ
عائشہ اپنی نانی جان سے اتنی بڑی خوشی کی بات سن کر عجیب سا محسوس کر رہی تھی ۔اتنے سال کے بعد وہ لوگ ان کے گھر اس رشتے کے تحت آرہے تھے جو انہوں نے بہت پہلے اپنے بچوں کے سلسلے میں طے کیا تھا۔ بچوں کا دونوں خاندانوں کے بزرگوں نے وکیل کی حیثیت سے اس کی والدہ کی بستر مرگ پر انکی خواہش کے احترام میں نکاح کا فریضہ انجام دیا تھا کہ جب بچے بڑے ہوجائیں گے تو رخصتی عمل میں لائی جائے گی۔ یہ اور بات کہ بیرون ملک ایک خاندان کے چلے جانے سے کچھ خدشات نے دل میں گھر کر لیا تھا لیکن اب وہ لوگ یہاں واپس آگئے تھے اور اب چند دنوں میں انکے شہر آنے، ان کے گھر ملنے اور اپنے فیصلے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے خواہش مند تھے ۔
موسیٰ فون پر اتنی زور دار آواز میں بات کر رہا تھا کہ ہاروت کو فون کان سے ایک لمحے کے لئے دور کرنا پڑا ،پھر کہا ” موسیٰ ایسی
کیا بات ہے کہ تم سے اپنی آواز پر کنٹرول ہی نہیں ہوپا رہا۔ذرا سمجھاﺅ مجھے کہ تمہیں ہوا کیا ہے؟ کسی خزانے کا نقشہ ہاتھ آگیا ہے کیا؟“
موسیٰ اسی جوش سے اپنی بات دہراتے ہوئے کہنے لگا کہ میں تم سے ملنے تمہاری یونیورسٹی گیا تھا یقین کرو عائشہ مجھے نظر آئی بلکہ کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ اس کی خوشبو مجھے ان فضاﺅں میں آئی۔مجھے لگتا ہے کہ وہ یہا ں اسی شہر میں ہے۔ ہاروت نے حیران ہوتے ہوئے کہاکہ بھائی وہ یہا ں کیسے آسکتی ہے تمہیں تو ویسے بھی اپنے خیالات پر اپنی چلانے کی عادت ہوگئی ہے اور فرض کرو کہ وہ یہا ں آبھی گئی ہے تو اس سے تمہیں کیا مطلب؟
موسیٰ کے جوش میں کوئی کمی نہ آئی بلکہ وہ اور یقین سے کہنے لگا کہ مجھے لگتا ہے کہ وہ کسی دعا کی قبولیت میں میری شریک زندگی ہوگی۔
ہاروت نے کہاکہ ابھی تم مجھے اتنے جذباتی لگ رہے ہو کہ میں کوئی بات اس سلسلے میں نہیں کر رہا۔ بتاﺅ انکل ،آنٹی سب کیسے ہیں ؟گھر میں سب کیسے ہیں اور تم کب ہمارے گھر آرہے ہو؟ موسیٰ نے کہا کہ میں ایک ہی دن کے لئے آیا تھا۔ اب تھوڑی دیر میں واپسی ہے۔ ہاروت نے یاد دلایاکہ عمر بھائی کے بارے میں تو معلوم ہو ہی گیا ہوگا۔سات سال کے بعد بالآخر انہوںنے اپنے والدین کی خواہش کو پورا کرنے کا ارادہ کر ہی لیا ورنہ بھابھی کی رخصتی کے دن ایکسیڈنٹ میں اس دنیا کو خیر با د کہنے کے بعد تو لگتا تھا کہ وہ اپنی پسند یدہ شخصیت کی یاد میں ہی ساری زندگی گزار دیں گے لیکن اچھا ہوا کہ اپنے والدین کی بات انہوں نے مان لی کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی زندگی صحرا کی طرح نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ ان کی خواہش ہے کہ انکا بیٹا دوبارہ اپنی زندگی کی شروعات کرے ۔ پھر موسیٰ سے پوچھا کہ کمانڈو! تمہیں چھٹی تو مل جائے گی ناں،چند دن ہم خوشی کے موقع پر ساتھ گزارلیں گے۔
موسیٰ نے جواب میں کہا کہ میں تو ہر صورت میں وہاں آنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور دعا بھی کرتا ہوں کہ جس طرح مجھے وہاں وہ ملی تھی اس جگہ دوبارہ مجھے مل جائے اور ایسے ملے کہ پھر کوئی مجھے یہ نہ بتائے کہ یہ اور عمر رشتہ دار ہیں لیکن ان کا نکاح ہو چکا ہے ۔یہ اور بات ہے کہ ان لوگوں نے بیرون ملک جانے کے بعد کوئی رابطہ نہیں رکھا ،نہ جانے کیا سوچے بیٹھے ہیں۔
ہاروت نے ٹوکنا مناسب نہیں سمجھا کہ جنہیں کسی سے محبت ہو جائے وہ جذباتیت میں ایسے ہی کچھ بھی کہہ جاتے ہیں۔
٭٭ جاننا چاہئے کہ دینی مسائل کے حل کے لئے مستند مفتی سے رجوع کرنا ضروری ہے ۔