بعض معجزے چیلنج کا نشان تھے تو دیگر رحمدلی، جانوروں پر کرم اور کچھ شفقت و عنایت کی علامت تھے
ڈاکٹر محمد لئیق اللہ خان اللہ
تبارک و تعالیٰ نے اپنے ہر نبی اور ہر پیغمبر کو ان کی حقانیت اور صداقت ثابت کرنے کیلئے معجزات عطا کئے۔ ہر قوم کے احوال اور مطالبات کے لحاظ سے ہر نبی کو معجزہ بخشا گیا۔ مثال کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام عصا اور یدبیضاجیسے معجزے ، جادوگروں کو زیر کرنے کیلئے دیئے گئے ۔ حضرت عیسیٰؑ کومردے زندہ کرنے اور متعدی امراض میں مبتلا افراد کو بیماریوں سے نجات دلانے کے معجزات عطا کئے گئے۔ پیغمبر اعظم و آخر محمدمصطفی کوبہت سارے مختلف النوع معجزے سے نوازے گئے۔ قاضی عیاض ؒ فرماتے ہیں ، پیغمبر اسلام محمد کے معجزات 2طرح سے تمام پیغمبروں کے معجزات پر بھاری ہیں: 1۔رسول اللہ کے معجزات ، تعداد کے اعتبار سے سب سے زیادہ ہیں۔جو معجزہ کسی نبی کو دیا گیا ویسا ہی معجزہ رسول اللہ کو بھی عطا کیا گیاعلاوہ ازیں آنجناب کو دیگر معجزات سے بھی نوازا گیا۔ 2۔ رسول اللہ کے معجزات شفاف اور روشن ہیں۔
سابق پیغمبروں کے معجزے ان کے دور کے لوگوں کی حیثیت اوراس زمانے کے ترقی یافتہ اور شہرت یافتہ فن کے پس منظر میں دیئے گئے۔ رسول اللہ کے معجزات خصوصاً قرآن پاک کا لازوال معجزہ ، ہرزمان و مکان کے لوگوں کیلئے ہے۔ ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا، کوئی نبی ایسا نہیں جسے معجزہ نہ عطا کیا گیا ہو۔ معجزات دیکھ کر لوگ ان پر ایمان لاتے تھے جبکہ مجھے وحی الٰہی سے نوازا گیا ۔ مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ پیروکار میرے ہونگے۔ آئندہ سطور میں رسول اللہ کے بعض معجزات اختصار کے ساتھ پیش کئے جارہے ہیں۔
معجزۂ قرآن: یہ نبی کریم کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی آخری اور عالمگیر کتاب ، کتاب ہدایت ہے۔ نبی امی رسول اللہ نے قرآن پاک کے ذریعے عربوں کے بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں کو چیلنج دیا تھا کہ وہ قرآن جیسی ایک سورہ تخلیق کرسکتے ہیں تو پیش کرکے دکھائیں۔ قرآن کریم کئی حوالوں سے معجزہ ہے۔
پہلی وجہ قرآن کریم فصاحت و بلاغت ، کلام کی سحر انگیزی ، اختصار و تفصیل، ہر لحاظ سے معجزہ ہے۔ قرآن میں کبھی ایک مضمون تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے پھر اس کا تذکرہ اختصار کے ساتھ کردیا جاتا ہے۔ لیکن مختصر مضمون میں کسی طرح کی کوئی خامی پیدا نہیں ہوتی۔ دوسری وجہ یہ معیاری نثر نگاروں کے اسلوب نگارش اور ممتاز شاعروں کے شعری اوزان و انداز سے یکسر مختلف ہے۔ تیسری وجہ اس میں سابقہ اقوام کی خبریں اور نبیوں اور صالح بندوں کے واقعات مذکور ہیں۔ چوتھی وجہ اس میں مستقبل سے متعلق غیب کی خبریں بیان کی گئی ہیں۔
پانچویں وجہ یہ اختلاف اور تضاد سے کلیتاً پاک ہے۔ معجزۂ شق القمر: ابن عباس ؓ بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ مشرکین مکہ ، رسول اللہ کے پاس آئے اور کہنے لگے اگر تم نبوت کے دعوے میں سچے ہو تو ہمیں چاند کے دوٹکڑے کرکے دکھاؤ ، رسول اللہ نے یہ سن کر سوال کیا کہ اگر میں نے ایسا کردیا تو کیا تم مجھ پر ایمان لے آؤگے؟ مشرکین مکہ نے اثبات میں جواب دیا۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ نے چاند کے دوٹکڑے کردیئے، ا س کا ایک حصہ پہاڑ کے اوپر اور دوسرا پہاڑ کی اوٹ میں چلا گیا تھا۔ رسول اللہ نے چاند کے ٹکڑے کرکے حاضرین سے کہا تھا کہ دیکھو۔
قرآن پاک نے اس واقعہ کا تذکرہ سورہ قمر کی پہلی آیت میں کرکے اسے لازوال بنا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قیامت کی گھڑی قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔ تیسرا معجزہ:دست مبارک سے کھانے میں برکت: حضرت جابر بن عبداللہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے خندق کی کھدائی کے کام میں رسول اللہ کے ساتھ حصہ لیا تھا۔ میرے یہاں بکری کا ایک بچہ تھا،میں نے سوچا کہ اسے رسول اللہ ؓ کی خدمت میں پیش کیا جائے۔جابر کہتے ہیں کہ شام کے وقت جب رسول اللہ نے خندق سے واپسی کا عزم کیا (آپ اس وقت دھوپ کی شدت کے باعث پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے تھے) تو میں نے کہا ، اے رسول خدا، ہمارے یہاں ایک بکری تھی میںنے اس سے کھانا تیار کیاہے۔ہم نے جو کی روٹی سے کھانا بنایا ہے۔ میری خواہش تھی کہ رسول اللہ میرے گھر تنہا تشریف لائیں اور آپ کے ہمراہ کوئی نہ ہو۔ رسول اللہ نے میری درخواست سن کر فرمایا ، ٹھیک ہے اور پھر اونچی آواز میں اعلان کیا کہ سب لوگ رسول اللہ کے ہمراہ جابر کے گھر چلیں۔ جابر کہتے ہیں کہ میں نے دل ہی دل میں کہا ، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
بہر حال رسول اللہ اور آپ کے ہمراہ صحابہ تشریف لائے، ہم نے بکری اور روٹی رسول اللہ کی خدمت میں پیش کردی، آپ نے بسم اللہ کہہ کر کھانا تناول کیا، لوگوں کا ایک گروپ کھانے کیلئے حاضر ہوتا اور کھانا تناول کرکے نکل جاتا، پھر دوسرا گروہ آتا ، یہ سلسلہ یونہی چلتا رہایہاں تک کہ خندق کا کام کرنیوالے تمام لوگ سیر شکم ہوگئے ، یہ تقریباً300لوگ تھے۔ چوتھا معجزہ:رسول اللہ کی مبارک انگلیاں چشمہ آب میں تبدیل۔ حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم زوراء کے مقام پر تھے ، آپ کی خدمت میں ایک برتن میں پانی لایا گیا، اس میں آپ کی انگلیاں نہیں ڈوب رہی تھیں( پانی بہت کم تھا) رسول اللہ نے صحابہ کو اس برتن سے وضو کرنے کا حکم دیا۔ آپ نے اپنی ہتھیلی پانی میں رکھ دی اور آپ کی انگلیوں کے درمیان اور پوروں سے پانی ابلنے لگا۔ تمام حاضرین نے اس برتن سے وضوکیا۔ انس بن مالک ؓسے پوچھا گیا کہ آپ لوگ کتنے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ 300افراد تھے(متفق علیہ) ۔
پانچواں معجزہ:دعا کی قبولیت اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں۔ مثلاً انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ رسول اللہ کے زمانے میں بارش کی کمی کی وجہ سے لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے، ایک روز آپ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے، اچانک ایک بادیہ نشین کھڑا ہوا اور کہنے لگا، یا رسول اللہ! پانی ناپید ہوگیا،بچے فاقہ کررہے ہیں، اللہ سے ہمارے لئے دعا کیجئے، آپ نے دعاکیلئے ہاتھ اٹھائے اس وقت مطلع صاف تھا، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ رسول اللہ نے ابھی دعا ختم نہ کی تھی کہ آسمان پر گھنے بادل پہاڑوں کی طرح ابھر آئے ابھی آپ منبر سے اترے نہ تھے کہ میںنے بارش کے قطرے آپ کی داڑھی پر گرتے ہوئے دیکھے۔ مویشیوں کا شکوہ: عبداللہ بن جعفر ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک روزرسول اللہ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے ،وہیں ایک اونٹ بھی تھاجب اس نے رسول اللہ کو دیکھا تو دکھی لہجے میں آوازیں نکالنے لگا، اونٹ آبدیدہ ہوگیا۔
رسول اللہ نے ہاتھ پھیر کر اسے چمکارا جس پر اسے چین آگیا۔آپ نے پوچھا اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ ، ایک انصاری نوجوان نے آکر کہا کہ اے رسول اللہ ! یہ اونٹ میرا ہے۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا، اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس اونٹ کا مالک بنا دیا ہے تم اس جانورکے سلسلے میں خدا ترسی سے کام نہیں لیتے۔ اونٹ نے شکایت کی کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے بہت زیادہ مشقت لیتے ہو۔ غور کیجئے کہ رسول اللہ نے کیسے کیسے معجزات اپنے امتیوں کو دکھائے۔ ایک طرف جانوروں پر شفقت فرمائی، دوسری جانب نبی رحمت اور نبی انسانیت کا کردار ادا کیا اور تیسری جانب مختلف قسم کے معجزات پیش کئے۔
(مکمل مضمون روشنی16دسمبر2016 کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں(