’پہلے صرف ایک جتھہ تھا،اب چار پانچ مزید گروہ سامنے آ گئے‘، ٹرانسپورٹر بھتہ خوری سے پریشان
’پہلے صرف ایک جتھہ تھا،اب چار پانچ مزید گروہ سامنے آ گئے‘، ٹرانسپورٹر بھتہ خوری سے پریشان
جمعہ 20 دسمبر 2024 9:40
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
ٹرانسپورٹرز کا الزام ہے کہ انتظامیہ بھتہ خوروں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔ فوٹو: بشکریہ سمیع خان
’میں افغان سرحد چمن سے تجارتی مال لے کر کوئٹہ کی طرف جا رہا تھا راستے میں نجی ملیشیا سے تعلق رکھنے والے مسلح افراد نے روکا اور سات ہزار روپے بھتہ مانگا۔ میرے پاس پانچ ہزار تھے، جس پر انہوں نے مجھے اور ڈرائیور کو زدوکوب کرنا شروع کر دیا۔‘
عبد الستار (فرضی نام) ٹرک ڈرائیور ہیں اور چمن سے کراچی اور لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں تک تجارتی سامان کی ترسیل کرنے والی ٹرانسپورٹ کمپنی کے ملازم ہیں۔
انہوں نے اپنی شناخت چھپانے کی شرط پر بتایا کہ چمن سے کوئٹہ کے درمیان قومی شاہراہ پر مسلح جتھوں کی بدمعاشی سے ٹرک ڈرائیور بہت پریشان ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں آئے روز بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
آل بلوچستان گڈز ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری سید عزیز اللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پہلے صرف ایک جتھہ بھتہ وصول کرتا تھا لیکن حکومت کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے چار پانچ مزید گروہ سامنے آ گئے ہیں اور یہ سلسلہ چھ ماہ سے جاری ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کوئٹہ اور چمن کے درمیان قلعہ عبداللہ کا ضلع آتا ہے جس کی حدود میں قومی شاہراہ پر میزئی اڈہ، قلعہ عبداللہ بازار اور جنگل پیرعلیزئی سمیت کم از کم پانچ مقامات پر نجی ملیشیا نے باقاعدہ ناکے لگا رکھے ہیں جہاں بھاری اسلحے سے لیس افراد افغانستان آنے اور جانے والی ہر مال بردار گاڑی کو روکتے ہیں اور زبردستی رقوم وصول کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہر ٹرک اور مال بردار گاڑی سے ہر ناکے پر ایک ہزار سے لے کر 10 ہزار روپے تک وصول کیے جاتے ہیں۔ ہر روز سینکڑوں ٹرک اس راستے سے گزرے ہیں اور روزانہ لاکھوں کا بھتہ وصول کیا جا رہا ہے۔‘
سید عزیز اللہ نے الزام لگایا کہ ’یہ سب کچھ ضلعی انتظامیہ، لیویز اور ایف سی کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ ایف سی اور لیویز کی چوکی سے صرف چند سو قدم کی دوری پر مسلح لوگ ٹرکوں سے بھتہ وصول کرتے ہیں مگر ٹرانسپورٹرز کے احتجاج کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’رقم نہ دینے پر ٹرک عملے کو مارا پیٹا جاتا ہے یہ مسلح لوگ بعض دفعہ گاڑیاں بھی لے جاتے ہیں اور پھر بھاری رقوم لے کر واپس کی جاتی ہیں۔‘
قلعہ عبداللہ کی ضلعی انتظامیہ کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’بھتہ خوری میں مقامی قبائل کے طاقتور لوگ ملوث ہیں جو حکومت میں بھی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ یہ گروہ بھتہ خوری کے علاوہ اغوا، چوری، بھنگ اور افیون کی کاشت میں بھی ملوث ہیں۔‘
افغانستان سے تجارتی سامان پاکستان لانے والے تاجر اشرف کاکڑ کہتے ہیں کہ ’ہم افغانستان سے تمباکو، پیاز اور دوسری اشیا درآمد کرتے ہیں، چمن سرحد پر کسٹم میں تمام ٹیکسز کلیئر کرتے ہیں۔ چمن سے قلعہ عبداللہ میں داخل ہوتے ہی بھتہ خوری شروع ہو جاتی ہے اور مختلف مقامات پر فی ٹرک مجموعی طور پر 50 ہزار روپے سے زائد کی رقم وصول کی جاتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پچھلے دنوں ان کے تمباکو سے بھرے ٹرک کے ڈرائیور سے سات ہزار روپے بھی لیے گئے اور مارا پیٹا بھی گیا۔ جس پر ہم نے احتجاج کرتے ہوئے قومی شاہرہ کو بند کر دیا تھا۔‘
اشرف کاکڑ کا کہنا تھا کہ ’بھتہ لینے والے انتہائی طاقتور لوگ ہیں ان کے پاس افغانستان سے فرار ہونے والے سابق افغان فورسز کے تربیت یافتہ مسلح کارندے موجود ہیں جو کسی کے قتل سے بھی گریز نہیں کرتے۔‘
ان کے مطابق ’بھتہ خوری کے علاوہ چوری، ڈکیتی کی وارداتیں بھی عام ہیں۔ رات آٹھ بجے کے بعد کوئی اس شاہراہ پر سفر نہیں کر سکتا۔ ایسے حالات سے تنگ آ کر بعض لوگوں نے چمن کے راستے تجارت ہی چھوڑ دی ہے اور اب طورخم سرحد کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘
قلعہ عبداللہ سے تعلق رکھنے والے رکن بلوچستان اسمبلی عوامی نیشنل پارٹی کے انجینیئر زمرک اچکزئی کا حالات کے حوالے سے کہنا ہے کہ ’ان کی وجہ سے پورا ضلع بدنام ہے اور لوگ شادی و غم میں بھی قلعہ عبداللہ میں رہنے والے رشتہ داروں کے پاس جانے سے گریز کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ڈپٹی کمشنر قلعہ عبداللہ، ڈی جی لیویز اور دیگر متعلقہ حکام سے لیویز کی کوئیک رسپانس فورس کی قلعہ عبداللہ میں تعیناتی کی درخواست کی ہے اور اس سلسلے میں وزیراعلیٰ سے بھی بات کی جائے گی۔
انسپکٹر جنرل پولیس بلوچستان معظم جاہ انصاری کا کہنا ہے کہ بھتہ خوری کی یہ شکایات لیویز ایریا سے سامنے آ رہی ہیں اگر لیویز کو اس جرم کے خاتمے کے لیے پولیس کی مدد کی ضرورت ہوئی تو انہیں مکمل تعاون فراہم کیا جائے گا۔