تحقیقی مقالے برائے فروخت...!!
ڈاکٹر صدقہ یحییٰ فاضل ۔ عکاظ
جی ہاں تحقیقی مقالے پیشہ ور افراد تیار کرکے کبھی اِسے اور کبھی اُسے فروخت کررہے ہیں۔ مقالہ نگار گاہک کے نام پر تحقیقی مقالہ تیار کرکے اس انداز سے خریدار کی خدمت میں پیش کرتا ہے گویا وہ مقالہ خود خریدار کی تخلیق و تصنیف ہے۔ خریدار سے رقم لینے کے بعد تحقیقی مقالے سے مقالہ نگار کا ہر رشتہ منقطع ہوجاتا ہے،یہ کوئی نئی بات نہیں.... البتہ پوری عرب دنیا میں حالیہ ایام میں اسکا رواج کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے۔ افسوسناک بلکہ شرمناک پہلو یہ ہے کہ یہ کاروبار دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ اس کاروبار نے عرب بلکہ غیر عرب جامعات کی معنویت اور قدرو قیمت پر سوالیہ نشان کھڑے کردیئے ہیں۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ کسی بھی جامعہ کے بنیادی کاموں میں تدریس اور سا ئنسی تحقیق شامل ہیں۔ علمی تحقیق ہر یونیورسٹی کے بنیادی فرائض میں سے ایک ہے۔ اسکے بغیر کوئی بھی یونیورسٹی کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دے سکتی۔
یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ معیاری علمی تحقیق ہی کسی بھی تمدنی ترقی کی کلید ہے۔ انسان علمی تحقیق اپنے مطالعے کی بنیاد پر کرتا ہے۔ علمی مطالعے کے نتیجے میں علوم و معارف تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ مختصر الفاظ میں یہ بات یوں کہی جاسکتی ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں بنی نوع انساں کو جو ترقی اور خوشحالی ملی ہے وہ بنیادی طور پر علمی تحقیق ہی کا ثمر ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ معتبر علمی تحقیق انسانی تمدن کے جائز باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ علمی تحقیق ہی انسانی ترقی اور خوشحالی کی اساس ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک کی ترقی سب سے پہلے علمی تحقیقی کاموں سے جڑی ہوئی ہے۔
علمی تحقیق کے پیش نظر ہی ہر یونیورسٹی کا فرض ہے کہ وہ اپنے طلباءکو یہ بتائے کہ علمی تحقیق کس طرح کی جاتی ہے یہ سمجھائے کہ علمی تحقیق کے بغیر گزارہ نہیں۔ جامعہ اپنے طلباءکو علمی تحقیق کی تربیت دے اور اپنے فضلا ءمیں علمی تحقیق کی مہارت پیدا کرے۔ ہر وہ طالب علم جو اپنے شعبے میں علمی تحقیق کی مہارت نہ رکھتاہو اور یونیورسٹی کو خیر باد کہہ چکا ہو ایسے طالب علم کو ”فاضل یونیورسٹی“ نہیں کہا جاسکتا۔ ہر وہ طالب علم جس میں علمی تحقیق کی صلاحیت نہ ہو وہ طالب علم کیونکر ہوسکتا ہے۔ جامعات کے بیشتر اساتذہ اپنے طلباءسے مختلف مضامین میں مقالے تحریر کراتے ہیں۔ ہر مضمون کے100 نمبروں میں سے 10تا 20نمبر اسی طرح کے تحقیقی مضمون کیلئے مختص کئے جاتے ہیں۔
ہمارے یہاں اس حوالے سے خطرناک مسائل دیکھنے میں آرہے ہیں۔ ہماری بیشتر جامعات میں بعض افراد بلکہ ادارے طلباءکو تیار تحقیقی مضمون فراہم کرنے کا دھندا کررہے ہیں۔ 200تا 500ریال لیکر تحقیقی مضمون طلباءکو بیچ دیتے ہیں۔ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ اس قسم کا دھندا کرنے والے بیشتر مضمون نگار جامعات کے اطراف منڈلاتے رہتے ہیں۔ یہ کام وہ کھلم کھلا ہی کرتے ہیں۔ بہانہ تحقیقی مضمون کو کمپوز اور فوٹو کاپی کرانے کا کرتے ہیں۔ طالب علم کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ مضمون نگار کو مضمون کا عنوان ، موضوع اور حجم بتا دے۔ باقی سارا کام مذکورہ دھندا کرنے والے انجام دیتے ہیں۔ کبھی کبھار تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ حضرات ایک ہی بحث سرورق تبدیل کرکے متعدد طلباءکے ہاتھوں فروخت کردیتے ہیں۔ اساتذہ اس بات کی زحمت نہیں کرتے کہ یہ پتہ لگانے کی کاوش کریں کہ پیش کردہ مضمون خو داس طالب علم کی کاوش ہے جسے اس نے پیش کیا ہے یا وہ کسی سے لکھوا کر لایا ہے۔
قانونی پابندیوں کے باوجود یہ رواج دھماکہ خیز شکل اختیار کرچکا ہے۔ اب تو ایم فل کا مقالہ 10سے 20ہزار ریال اور پی ایچ ڈی کا مقالہ اس سے زیادہ رقم کے بدلے مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب سعودی معاشرہ اسی طرح کی ڈگریاں رکھنے والوں کا معاشرہ بن جائے۔ یہ ملک اور قوم کی تباہی کا باعث رواج ہے۔ اگر کوشش کی جائے تواسکا دائرہ نہ صرف یہ کہ بیحد محدود بلکہ اس کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔ جہاں تک تحقیقی مقالے لکھنے اور فروخت کرنے والوں کا تعلق ہے تو انہیں اس حوالے سے روکا جانا ہر قیمت پر ضروری ہے۔ اساتذہ کو اس امر کا پابند بنایا جائے کہ وہ پیش کردہ مضامین او رمقالات چیک کئے بغیر طالب علم کو مطلوبہ نمبر نہ دیں۔ وزارت تعلیم اور جامعات کو اس منفی اور تبا ہ کن رواج کے ہمہ جہتی مطالعے اور اسکے خاتمے کے لئے موثر اقدامات کرنا ہونگے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭