Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شریعت میں تبدیلی ، صرف اللہ کا حق

زندگی کے مختلف معاملات میں اللہ تعالیٰ نے جو حدود قائم کئے ہیں کیا کوئی مسلمان ان سے قدم باہر رکھنے کی ہمت کرسکتا ہے؟

*  *سید جلال الدین عمری ۔ہند* *
    بعض لوگوں کا خیال ہے اور اس خیال کو مختلف حلقوں سے اسلوب بدل بدل کر پیش کیا جاتا ہے کہ شریعت ایک خاص وقت اور ماحول میں نازل ہوئی تھی ، اب وہ حالات باقی نہیں رہے اور ہمیں ایک نئی صورت حال کا سامنا ہے اس لئے شریعت کو جوں کا توں قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اگراس میں مناسب اصلاح اور ترمیم نہیں کی گئی تو وہ دور جدید کی ضرورتوں کا ساتھ نہیں دے سکے گی اور امت کیلئے موجودہ پستی سے نکلنا ممکن نہ ہوگا۔ بعض لوگ یہ بات کھل کر تو نہیں کہتے لیکن اپنی اس خواہش میں مضطرب اور بے چین ضرور نظر آتے ہیں کہ شریعت کو کسی نہ کسی طرح دور جدید سے ہم آہنگ کرکے دکھائیں تاکہ شریعت کا نام لینے والوں کو یا کم از کم خود ان کو اس ناموزونیت سے پشیمانی نہ اٹھانی پڑے۔ اس کیلئے انہیں شریعت کی ایسی تعبیر وتفسیر کرنے میں بھی تامل نہیں ہوتا جو زبان وبیان ، اس کی مستند تشریحات اور امت کے تعامل سے کسی طرح میل نہیں کھاتی۔
    ان خیالات کا تعلق شریعت کے کسی خاص مسئلے سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی شریعت جتنی وسیع اور ہمہ گیر ہے ان کا دائرہ بھی اتنا ہی وسیع اور ہمہ گیر ہے۔ کسی کو اس کے نظام ِعبادت میں نقص نظر آتا ہے ، کوئی اس کی معاشرت کو بدلنا چاہتا ہے، کسی کو اس کی تہذیب وثقافت میں رفو گری کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ، کوئی اس کی معاشی تعلیما ت میں پیوند کاری کا مشورہ دیتا ہے، کوئی اس کے حدود تعزیرات کی وحشت وبربریت دور کرنا چاہتا ہے۔اگر ان سب خیالات کو ایک خاص ترتیب سے یکجا کردیا جائے تو اس کی ایسی بھیانک تصویر بنے گی کہ اس کی طرف شوق ورغبت سے بڑھنے کی جگہ آدمی اس سے دور بھاگے گا بلکہ اسے اس میں بھی شک وشبہ ہونے لگے گا کہ شریعت واقعتارب العزت کی طرف سے آئی بھی ہے یا نہیں۔ ان خیالات کا اظہار اسلام کے کسی منکر یا مخالف کی طرف سے ہوتو اسے شریعت کی معنویت سمجھائی جاسکتی ہے اور وقت ضرورت کسی نہ کسی درجے میں اس کی کوشش بھی رہتی ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ اس قسم کے خیالات بعض اوقات ان لوگوں کی طرف سے سامنے آتے ہیں جو خود کو اسلام کے ماننے والے اور اس کے ہمدرد وبہی خواہ کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں حالانکہ جس شخص کو یہ یقین ہو کہ شریعت کسی انسان کی تصنیف کردہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی ہے اور اس کے رسول نے اسی کی طرف سے اس کی تشریح وتوضیح کی ہے وہ کبھی بھی ان خیالات کا اظہار نہیں کرسکتا ۔ یہاں ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت کو کس حیثیت سے پیش کیا ہے؟
    رسول اکرم نے اپنی وفات سے تقریباً3ماہ قبل حجۃ الوداع کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے صاف وصریح الفاظ میں اعلان فرمایا’’آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر میں نے پسند کیا‘‘ (المائدہ3) آیت میں دین کا لفظ آیا ہے جس میں شریعت بھی داخل ہے بلکہ بعض احکامِ شریعت کے سیاق سباق ہی میں یہ آیت آئی ہے۔ اس میں اس بات کی صراحت ہے کہ شریعت ہر پہلو سے مکمل ہوچکی ہے ۔ اب نہ تو کوئی نئی شریعت آئے گی اور نہ اس میں قیامت تک کسی قسم کا حذف واضافہ اور ترمیم وتنسیخ ہوگی۔ یہ ختم نبوت کی بھی دلیل ہے ، اس لئے کہ شریعت میں چھوٹی با بڑی کوئی بھی تبدیلی پیغمبروں ہی کے ذریعہ آتی ہے ۔ جب ایک ابدی شریعت آگئی تو کسی نئے پیغمبر کی ضرورت بھی باقی نہیں رہی۔ اب شریعت میں کسی حذف واضافے کا مطلب صرف یہی نہیں ہوگا کہ محمد کے دعویٰٔ ختم نبوت کو نہ مانا جائے بلکہ یہ خود کو مقام نبوت پہنچانے کے متراف ہوگا۔ اس آیت کی حافظ ابن کثیرؒ نے بڑی عمدہ اور پر معنی تشریح کی ہے، یہاں اس کا خلاصہ ہم اپنے لفظوں میں پیش کرتے ہیں:
    ’’اللہ تعالیٰ نے اس امت کو جن نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے اس کیلئے دین کو اس طرح مکمل کردیا کہ اب اسے کسی دین کی اور اپنے پیغمبر حضرت محمد کے سوا کسی پیغمبر کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاتم الانبیاء بنا یااور سارے ہی جنوں اور انسانوں کی طرف مبعوث فرمایالہذا حلال صرف وہ ہے جو آپ نے بتایا ، جس بات کی بھی آپ نے خبر دی وہ حق ہے اور سچ ہے۔ اس میں نہ جھوٹ ہے اور نہ اس کے واقع ہونے میں کوئی شبہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو مکمل کردیا تو گویا اس امت پر اپنی نعمت بھی مکمل کردی لہذا اسے اس نعمت پر خوش اور مطمئن ہونا چاہئے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ آیت میں دین سے مراد اسلام ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور مومنوں کو اس میں بتایا ہے کہ اس نے ان کے ایمان کو مکمل کردیا ۔ اب اس میں انہیں کسی اضافے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس نے اسے مکمل کردیا ، اب اس میں کسی قسم کی کمی نہیں کرے گا اور اس نے اسے پسند کرلیا ، اس سے کبھی ناخوش نہ ہوگا‘‘(ابن کثیر)
    یہ حقیقت ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تعلیمات پر یقین ہو وہ دین میں کسی حذف واضافہ اور نقص کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ تکمیلِ دین اور ختم نبوت نے اس کے نزدیک اس امکان ہی کو قیامت تک کے لئے ختم کردیا ہے۔ یہ تو ایک اصولی بات ہوئی، اس پر بعض اور پہلوؤں پر بھی غور ہوسکتا ہے:
    شریعت کا ایک اہم مقصد اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرام اور حلال کی تعیین بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے وہ ساری چیزیں حلال کردی ہیں جو طیب وپاک ہیں ، جن کو اس کی فطرت سلیمہ پسند کرتی ہے ، جو اس کی جسمانی صحت اور اخلاق وروحانیت کیلئے مفید ہیں۔ اسی طرح اس نے ان تمام چیزوں کو حرام ٹھہرادیا ہے جن کو قبول کرنے سے انسان کی فطرت انکار کرتی ہے، جو اس کی صحت اور کردار پر اثر ڈالتی ہیں اور جو خبیث وناپاک ہیں، چنانچہ رسول اللہ   کا ایک وصف اس نے بیان فرمایا کہ ’’وہ ساری چیزوں کو ان کے لئے حلال اور پاپاک چیزوں کو ان پر حرام کرتے ہیں‘‘(الاعراف157) رہبانیت نے پاک چیزوں کو بھی حرام قراردے رکھا ہے۔ اسلام نے اسے غیر الہٰی طریقہ بتایا اور کہا ’’کھاؤ پیو لیکن اسراف نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ  اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ان سے پوچھو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کیلئے جو زیب وزینت نکالی ہے اور کھانے کی صاف ستھری چیزیں پیدا کی ہیں انہیں کس نے حرام کیا؟ ان سے کہو اس دنیا کی زندگی میں یہ اصلاً ایمان والوں ہی کے لئے ہیں اورقیامت کے دن تو خالص ان کے واسطے ہوں گی‘‘ (الاعراف31،32) اللہ تعالیٰ نے یہ بھی کہا کہ ’’جوچیزیں اللہ نے تم پر حرام کی ہیں اس نے تفصیل سے وہ تمہیں بتادی ہیں‘‘ (الانعام119)
    اس کے ساتھ اس کے نزدیک یہ صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ وہ کسی چیز کی حلت یا حرمت کا فیصلہ کرے۔ کسی دوسرے کو یہ حق ہرگز نہیں ۔ اس نے صاف کہا ’’تمہاری زبانیں جھوٹ بولتی ہیں، ان کی بنا پر یہ مت کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے، اس طرح تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹی تہمت لگاؤ گے، جو لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہوتے ، یہ چند روزہ سامان زیست ہے اور اس کے بعد ان کے لئے دردناک عذاب ہے‘‘ (النحل116،117)حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں’’اس حکم میں ہر وہ شخص داخل ہے جس نے بغیر کسی سند ِ شرعی کے نئی بات پیدا کی یا محض اپنی رائے اور خواہش کی بناپر اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو حلال کیا اسے حرام قراردیا اور جسے اس نے حرام ٹھہرایا اسے حلال کردیا‘‘ (تفسیر ابن کثیر)
    جب کوئی شخص حلت اور حرمت کا فیصلہ کرنے کا مجاز ہی نہیں اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی چیز کے حرام یا حلال ہونے کا فیصلہ کرے اور اس نے تفصیل بھی بتادی ہے تو پھر شریعت میں حذف اور اضافہ کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں اس اجتہاد سے بحث نہیں جو شریعت کے حلال وحرام کی روشنی میں ہوتا ہے ، اس لئے کہ وہ اس کے تابع ہوتا ہے۔
    ایک اور پہلو سے اس مسئلے کو سوچئے، احکام شریعت کو قرآن مجید نے مختلف مقامات پر حدود اللہ سے تعبیر فرمایا ہے۔ روزے کے احکام کے ذیل میں فرمایا ’’یہ اللہ کی بندھی ہوئی حدیں ہیں ، ان کے قریب نہ جاؤ‘‘ (البقرہ187) طلاق کے احکام بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’یہ اللہ کی قائم کردہ حدود ہیںجنہیں وہ جاننے والوں کیلئے بیان کرتا ہے‘‘ (البقرہ 230)ان حدود کی پابندی پر جنت کی خوشخبری اور ان کی خلاف ورزی پر جہنم کی سزا سنائی ہے چنانچہ میراث اور وصیت کے احکام کے سلسلے میں فرمانِ الٰہی ہے ’’یہ اللہ کے قائم کردہ حدیں ہیں، جو اللہ اور اس کے رسول() کی اطاعت کرے گا اسے وہ ایسی جنتوں میں داخل کرے گاجن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے اور جو اللہ اور اس کے رسول() کی نافرمانی کرے گا اور اس کے قائم کردہ حدودسے تجاوز کرے گا، اسے وہ جہنم میں داخل کرے گاجن میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے رسوا کن عذاب ہے‘‘ (النساء13،14)
    زندگی کے مختلف معاملات میں اللہ تعالیٰ نے جو حدود قائم کئے ہیں ، جن کی پابندی کی اتنی تاکید ہے اور جس کے تجاوز اور خلاف ورزی کو اس نے اتنی شدت سے منع کیا ہے ، کیا کوئی مسلمان ان سے قدم باہر رکھنے کی کبھی ہمت کرسکتا ہے اور اگرغفلت میں کبھی ان حدود کوتوڑ دے تو اسے جائز قرار دے سکتا ہے یا کسی کو ان کے توڑنے کا مشورہ دے سکتا ہے؟
    عرب کے مشرکوں کے بارے میں قرآن نے کہا کہ’’ جب انہیں ہماری صاف صاف آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ اس کے بجائے کوئی دوسرا قرآن لاؤ یا اس کو بدل دو‘‘جو لوگ اللہ کے دین اور شریعت میں تبدیلی چاہتے ہیں غالباً ان کی ذہنیت بھی کچھ اس سے زیادہ مختلف نہیں۔ قرآن نے عرب کے مشرکین کے اس مطالبہ کے جواب میں کہا کہ اللہ تعالیٰ کے دین میں تبدیلی اس کا پیغمبر بھی نہیں کرسکتا’’ان سے کہہ دو کہ میرا کام یہ نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے بدل دوں، میں تو بس اس وحی کی اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر کی جاتی ہے، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے‘‘(یونس15) کیا اس جواب کے بعدبھی کسی صاحبِ ایمان کی طرف سے شریعت میں تبدیلی کا سوال اٹھایا جاسکتا ہے؟۔
 

مزید پڑھیں:- - - -’’روح محمد ان کے بدن سے نکال دو‘‘

شیئر: