مسجد نبوی کی توسیع مختلف ادوار میں ہوتی رہی، ایک بڑی توسیع جو اللہ کے رسولکے دور اقدس میں ہوئی، وہ فتح خیبر کے بعدہوئی
* * *عبدالمالک مجاہد ۔ ریاض* * *
ایسا کیسے ممکن ہے کہ مدینہ منورہ کا سفر ہو اور اس میں لطف نہ آئے۔ میرے نزدیک سعودی عرب میں رہنے کے دیگر فوائد کے ساتھ حرمین شریفین کی زیارت سب سے افضل ہے۔ اس سال 1439ھ میں حج بیت اللہ کرنے والوں میں میرا چھوٹا بھائی محمد طارق شاہد اور برادر نسبتی حافظ عبدالعظیم اسد بھی شامل تھے۔ دونوں اپنی بیگمات اور دیگر رشتہ داروں کے ہمراہ اس مقدس فریضے کی ادائیگی کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے۔ میں نے کافی عرصہ سے معمول بنایا ہوا ہے کہ حج یا عمرہ پر تشریف لانے والے اپنے پیاروں سے کہتا ہوں کہ جب آپ مدینۃ الرسول آ جائیں تو مجھے بھی بتا دینا ،میں ان شاء اللہ وہاں ملاقات کے لیے آجاؤں گا۔ ویسے بھی قارئین کرام اچھی طرح جانتے ہیں کہ مدینہ شریف میں سکون، چین اور اطمینان کا خاص ماحول ہے۔ یہاں رش زیادہ نہیں۔ یہاں جلال کی نسبت جمال زیادہ ہے۔ مسجد نبوی شریف اُن 3 مقدس مقامات میں سے ایک ہے جن کے بارے میں پیارے نبی کریمنے فرمایا ہے کہ 3 مساجد کے سوا کسی مسجد کی زیارت کی نیت سے جانے کے لیے سفر کا خصوصی اہتمام نہ کیا جائے : مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔ بلاشبہ یہ تینوں مساجد مسلمانوں کے لیے بے حد اہم ہیں۔ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے جہاں ایک نماز پڑھنے کا ثواب 500نمازوں کے برابر، مسجد نبوی میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب ایک ہزار نماز کے برابر اور بیت اللہ شریف میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے۔ اس سفر میں جہاں اپنے عزیزوں سے ملاقات ہوئی، ان سے لمبی ملاقاتیں اور تبادلہ خیال رہا،وہیں نمازیں ، نوافل ، دعائیں ، قرآن پاک کی تلاوت خصوصاً فوت شدگان کے لیے دعاؤں سمیت مختلف شخصیات سے ملاقاتیں اس سفر کا حاصل تھیں۔ 17ستمبر2018،بروز پیر کوقبر مبارک پر درود و سلام کے بعد مسجد میں آیا تو میں نے مسجد نبوی کی خوبصورت عمارت کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔ اس مسجد کا ایک ایک کونہ، اس کی ایک ایک دیوار، اس کے دروازے اوراس کے ستون جن کی اپنی ایک تاریخ ہے، میں نے دروازے کو ہاتھ لگا کر اس کی موٹائی اور مضبوطی پر غور کرنا شروع کیا۔ اسے بنانے والے کاریگر کے حق میں دعائیں تو تھیں ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس مسجد کی تعمیر کروانے والے کے لیے بھی دل کی گہرائی سے دعائیں نکل رہی تھیں۔ مسجد کا انتظام ، اس کی صفائی ، ستھرائی کا نظام ، زم زم کے پانی کی وافر مقدار میں فراہمی، جابجا زم زم سے بھرے ہوئے کولر، ایک ایک چیز پر غور کرتے جائیں،آپ کے دل سے سعودی حکومت کے لیے دعائیں نکلتی چلی جائیں گی کہ اس نے حجاج کی خدمت کا حق ادا کر دیا۔ میں نے مسجد نبوی شریف کو آج سے 38سال پہلے بھی دیکھا تھا۔اس کا نقشہ ابھی تک دل و دماغ میں محفوظ ہے۔ آج مسجد پہلے کے مقابلہ میں کئی گناہ زیادہ وسیع وعریض ہو چکی ہے۔ مسجد نبوی شریف کی تاریخ کے مطالعہ میں ایک عجیب لذت ہے۔ مسلمان جتنی باربھی مسجد نبوی شریف کے بارے میں پڑھ لیں، وہ سیر نہیں ہوتے۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے فیصلہ کیا کہ اللہ نے چاہا تو سفر سے واپسی پر اس مقدس مسجد کے بارے میںاپنے پیارے قارئین کے افادہ کے لیے کچھ ضرور لکھوں گا۔ قارئین کرام !یہ وہ مبارک مسجد ہے جس کا سنگ بنیاد اللہ کے پیارے رسول نے اپنے دست مبارک سے رکھا تھابلکہ بنفس نفیس اس کی تعمیر کے کام میں شامل رہے۔ میں کئی مرتبہ اسعد بن زرارہ ؓ کی زیر تربیت اُن 2انصاری یتیم بچوں سہل اور سہیل کی قسمت پر رشک کرتا ہوں۔ یہ جگہ ان دونوں یتیم بچوں کی ملکیت تھی۔ اللہ کے رسول نے ان سے اس جگہ کی قیمت پوچھی تو ان کا جواب تھا کہ ہم یہ زمین مسجد کی تعمیر کے لیے مفت دیتے ہیںمگر اللہ کے رسولنے مفت لینے سے انکار کر دیا۔ زمین کی قیمت سیدنا ابوبکر صدیق نے 10 دینار ادا کر دی۔ میں نے تصور میں دیکھا کہ اُن دنوں مسجد نبوی کا قبلہ شمال کی طرف تھا جو احد پہاڑ کی طرف بنتا ہے۔ اُس وقت مسلمان مسجد اقصیٰ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ ابھی بیت اللہ شریف کو قبلہ بنانے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ اللہ کے رسولنے اپنے صحابہ کرامؓ ؓکے ساتھ اپنی مدد آپ کے تحت اس مسجد کی تعمیر مکمل فرمائی تھی۔ صحابہ کرامؓ نے اپنے اپنے تجربہ وصلاحیت کے مطابق مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا تھا۔ کوئی کچی اینٹیں بنا رہا ہے ۔ کوئی مٹی ڈھو رہا ہے۔ کوئی بڑی بڑی اینٹوں کو اپنے ہاتھوں میں اٹھاکر لا رہا ہے۔ عام صحابہ کرامؓ ایک ایک اینٹ اٹھا کر لا رہے ہیں، مگر آپ کے ایک صحابی عمار بن یاسر ؓ اپنے ہاتھوں میں 2,2اینٹیں اٹھائے ہوئے ہیں۔ اللہ کے رسول نے سیدنا عمار ؓ کو دیکھا تو ان کے جسم سے مٹی جھاڑی اور انہیں جنت کی خوشخبری سنائی۔ مسجد نبوی شریف کی تعمیر کا آغاز ہجرت کے پہلے سال ربیع الاول میں ہوتا ہے اور شوال یکم ہجری میں تکمیل ہو جاتی ہے۔ مسجد کی لمبائی 35میٹر جبکہ چوڑائی 30میٹر تھی۔ بنیاد میں پتھر چنے گئے جبکہ اس سے اوپر کچھ اینٹیں لگائی گئیں۔مسجد کی چھت ڈھائی میٹر کی بلندی پرتھی۔ ابتدا ء میں مسجد کے 3 دروازے بنائے جاتے ہیں۔ 2 دروازے مشرقی اور مغربی جانب تھے جبکہ ایک دروازہ جنوب کی طرف تھا۔ مسجد کے دروازوں پر کواڑ نہیں تھے، یہ ہروقت کھلے رہتے تھے۔ آپ یہ سمجھ لیجیے کہ یہ مسجد میں داخلے کے راستے تھے۔ سیدنا انس بن مالک کی روایت کے مطابق دروازوں کے اطراف میں پتھروں سے بنے ہوئے ستون کھڑے کر دیئے گئے تھے۔ قارئین کرام نے باب جبریل دیکھا ہو گا۔ یہ دروازہ مسجد کی مشرقی جانب ہے۔ یہ دروازہ باب النبی کہلاتا ہے۔ اسی دروازے کی طرف سیدنا عثمان بن عفان کا گھر تھا اس لیے اس دروازے کو باب آل عثمان بھی کہا جاتا تھا۔مغربی دروازہ آج بھی باب الرحمہ کے نام سے مشہور ہے۔ دیواریں زیادہ اونچی نہ تھیں۔ آدمی اپنے ہاتھ کو اونچا کر کے چھت کو چھو سکتا تھا۔ کھجوروں کے تنوں کے ستون بنائے جاتے اور کھجور کی شاخیں بچھا کر چھت ڈالی جاتی تھی۔ جب ہم مسجد نبوی شریف پہنچے تو ان دنوں حجاج کرام کا رش توقع سے کہیں زیادہ تھا۔ ریاض الجنۃ میں نوافل ادا کرنے کی خواہش ہر مسلمان کو ہوتی ہے۔ اُس روز صبح7 بجے جب میں درود و سلام کے لیے گیا تو بے پناہ رش تھا۔ ہزاروں لوگ انتظار میں کھڑے تھے کہ کب ان کی باری آئے۔ میں نے حجاج کرام کے احترام میں فیصلہ کیا کہ اس مرتبہ حجاج کو ریاض الجنہ میں نوافل کا موقع دیا جائے۔ اللہ کے رسولنے فرمایا ہے کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہو گا۔جنت کا باغیچہ یا ریاض الجنہ سے مراد مسجد نبوی شریف میں وہ مقام ہے جو اللہ کے رسولکے منبر سے لے کر آپکے حجرہ مبارک تک ہے۔ علمائے کرام نے اس جگہ کی فضیلت کی تشریح میں بہت کچھ لکھا ہے۔ میرے نزدیک سارے مفہوم ہی درست ہیں۔ یہاں ہروقت رحمتیں نازل ہوتی اور سعادتیں نصیب ہوتی ہیں۔ ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اس میں عبادت کرنا جنت میں داخلے کا سبب ہے۔ مسجد نبوی شریف میں ریاض الجنہ کا یہ حصہ نہ صرف مسجد میں بہت مبارک جگہ ہے ،بلکہ تمام روئے زمین پر بالکل یکتا اور منفرد مقام ہے۔ اس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔عازمین کی آسانی کیلئے انتظامیہ نے سبز مصلے بچھا کر ریاض الجنہ کی نشاندہی کردی ہے۔صحابہ کرامؓ بھی اس جگہ کثرت سے نوافل ادا کرتے تھے۔ قارئین کرام! مجھے وہ ایام اچھی طرح یاد ہیں جب مسجد نبوی شریف میں زیادہ رش نہیں ہوتا تھا۔ اگر تہجد کے وقت مسجد میں آ جاتے تو بڑے آرام سے ریاض الجنہ میں جگہ مل جاتی تھی۔ ریاض الجنہ کی جگہ کتنی لمبی چوڑی ہے، اِسے جاننے کے بعد ذرا آگے بڑھیں گے۔ حجرہ مطہرہ اور منبر شریف کے درمیانی فاصلے کی پیمائش 26.5میٹر ہے۔ بعد کی توسیع اور ترمیمات کے بعد کچھ حصہ مقصورہ شریفہ کے اندر آچکا ہے۔ موجودہ پیمائش کے لحاظ سے 22میٹر لمبائی اور 15میٹر چوڑائی ہے۔ گویا روضہ شریفہ کا موجودہ رقبہ 330مربع میٹر ہے۔ مسجد نبوی کی توسیع مختلف ادوار میں ہوتی رہی ہے۔ ایک بڑی توسیع جو اللہ کے رسولکے دور اقدس میں ہوئی، وہ فتح خیبر کے بعد کی جاتی ہے۔ اللہ کے رسولکی مبارک زندگی میں ہی مسجد کی توسیع ہوتی ہے۔ مسجد کی لمبائی اور چوڑائی 100ہاتھ ہو گئی تھی ۔یعنی مسجد50میٹر چوڑی اور 50میٹر ہی لمبی تھی۔ مسجد کی توسیع کے لیے یہ زمین سیدنا عثمان بن عفانؓ نے خرید کر دی تھی۔ اللہ کے رسولنے ان کو جنت کی خوشخبری سنائی تھی۔ اللہ کے رسولکے بعد سیدنا عمر فاروقؓ نے مسجد نبوی میں توسیع کروائی۔ ان کے بعد آنے والے خلفاء یا حکام اپنے اپنے انداز میں ضرورت کے مطابق مسجد نبوی شریف کی توسیع کرواتے رہے یا اس کی عمارت کی تعمیر میں حصہ لیتے رہے۔ مسجد کا اگر کوئی حصہ کمزور ہو گیا تو اسے پھر سے تعمیر کروا دیاگیا۔ ترکوں نے اپنے دور میں مسجد نبوی شریف کی جو خدمت کی، وہ تاریخ کا ایک خوبصورت حصہ ہے۔ حجاز پر آل سعود کی حکومت 1825ء میں قائم ہوتی ہے۔شاہ عبدالعزیز علاقہ حجاز کو 1925میں سعودی حکومت میں ضم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے حجاج بیت اللہ کو سہولتیں دینا شروع کر دیں۔ حرمین شریفین کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش ہوتی رہی۔ مسجد نبوی شریف میں تاریخ کی سب سے بڑی توسیع کا کام شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دور میں 1986ء میں شروع ہوتا ہے۔ شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود طیب اللہ ثراہ کے دور میں 1952ء میں ان کے حکم پر مسجد نبوی شریف کی توسیع کا کام شروع ہوتا ہے۔ مسجد نبوی شریف کے ارد گرد کے مکانات خریدے جاتے ہیں۔ مسجد کی توسیع کے بعد مسجدکی کل جگہ16 ہزار326میٹر مربع ہوجاتی ہے۔ مسجد میں 28ہزار آدمی نماز ادا کر سکتے تھے۔ شاہ عبدالعزیز نے 50ملین ریال اس توسیعی منصوبے پر خرچ کیے۔ مسجد کی توسیع کا کام شاہ عبدالعزیز کی وفات تک جاری رہا۔ شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے شاہ سعود نے اکتوبر 1955ء کو توسیع شدہ حصے کا افتتاح کیا۔ مسجد کی عمارت کی لمبائی128میٹر اور چوڑائی 91میٹر ہوجاتی ہے۔ آل سعود کے دور میں حرمین شریفین کی توسیع ہو گئی۔ ملک میں امن و امان قائم ہوگیا ،لوگوں میں اسلامی شعور آنا شروع ہو گیا۔ حجاج کی لوٹ مار کا گھناؤنا جرم بند ہو گیا تو دنیا کے کونے کونے سے مسلمانوں کی بڑی تعداد حج اور عمرہ کے لیے سعودی عرب کا رخ کرنے لگی۔ کچھ عرصہ گزرا تو مسجد کی زمین حجاج کے لیے پھر سے تنگ نظر آنے لگی۔ اس دوران شاہ فیصل رحمہ اللہ کا دور شروع ہو چکا تھا۔ 1973ء میں انہوں نے مسجد نبوی شریف کی توسیع کا حکم دیا۔ مسجد کی مغربی جانب عمارتوں کو خرید کر گرا دیا جاتا ہے۔ مسجد کا رقبہ 35ہزارمربع میٹر ہو جاتا ہے۔ اس طرح 70 کنال پر مسجد کا رقبہ پھیل جاتا ہے۔ اس نئی جگہ پر لوہے کے شیڈ ڈالے جاتے ہیں۔ راقم الحروف جب 1980ء میں سعودی عرب آیا تو یہ شیڈ موجود تھے، میں نے خود انہیں دیکھا۔ شیڈ کے نیچے پنکھے لگے ہوئے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مسجد کے زائرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ بے شمار لوگ گلف کے ممالک میں نوکری کرنے آتے ہیں۔ ان میں عمرہ اور حج کا شعور اور جذبہ بڑھ جاتا ہے۔ سعودی عرب میں ورکرز اپنے والدین کو حج اور عمرہ کے لیے بلواتے ہیں۔ مسجد میں نمازیوں کے لیے جگہ پھر کم پڑ گئی۔ شاہ فہد بن عبدالعزیز کے حکم سے مسجد نبوی شریف کی توسیع کا کام ایک مرتبہ پھر شروع کیا جاتا ہے ۔ مسجد نبوی شریف کی تاریخ کی سب سے بڑی توسیع کا کام شروع ہو جاتا ہے۔1985ء میں شروع ہونے والی یہ توسیع9 سال تک جاری رہتی ہے۔ مسجد کے شمالی حصوں میں بھی شاہ فہد بن عبدالعزیز آل سعود خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں۔ جی بھر کر مسجد کی تعمیر پر خرچ کیا جاتا ہے۔ ارد گرد کی زمینیں خریدکر مسجد میں شامل کی جاتی ہیں۔ راقم الحروف کو یاد ہے کہ جیسے ہی ہم لوگ نماز پڑھ کر باب مجیدی سے باہر نکلتے تھے، وہاں سونے کا بہت بڑا بازار تھا۔ چند ایک ریسٹورنٹ بھی تھے۔کئی بڑے چھوٹے ہوٹل بھی موجود تھے مگر خاصے سستے تھے۔ حرم سے تھوڑا سا پیدل چلنے کے بعد کچے مکانات آ جاتے تھے۔ 50 ریال یومیہ پر کمرہ مل جاتا تھا۔ آج کے مقابلہ میں حجاج اور معتمرین کی تعداد بہت تھوڑی ہوتی تھی۔ بقیع الغرقد تک جانے کے لیے پتلی سی گلی تھی جس کے دونوں طرف کچے مکانات تھے۔ مسجد کی محراب کے پیچھے والے حصہ میں سیدنا ابو ایوب انصاریؓ کا گھر تھا۔ یہاں پر مکتبہ بھی تھاجو وقف تھا۔مسجد کی توسیع کے لیے چاروں اطراف میں مکانات، ہوٹل ، دوکانیں منہ مانگی قیمت پر خریدتے جاتے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ سونے کے بھاؤ پر زمینیں خریدی گئیں تو بے جا نہ ہو گا۔ بعض ہوٹل کئی کئی منزلہ تھے۔ ان کو اتنا معاوضہ دیا جاتا تھا کہ مالکان خوش ہوجاتے۔ ان جگہوں کے مالکان تمنا کرتے تھے کہ کاش ان کا گھر دوکان یا ہوٹل اس توسیعی منصوبے میں آ جائے۔ قارئین کرام! اس شخص کی خوش نصیبی کے کیا کہنے! جس کی جگہ مسجد نبوی کا حصہ بن جائے۔ قیامت تک لوگ نمازیں ادا کرتے رہیں گے اور انہیں اجر و ثواب ملتا رہے گا۔ سیدنا ابو طلحہ انصاریؓ جو سیدہ ام سلیم ؓکے خاوند تھے، مدینہ کے بڑے تجار میں سے تھے۔ ان کا باغ اب مسجد نبویؐ کا حصہ بن چکا ہے۔ آپؓ نے بیرحاء نامی باغ کواللہ کے لیے وقف کر دیا تھا۔ مسجد نبوی شریف کا توسیعی کام شاہ فہد کا صدقہ جاریہ ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔ انہوں نے 8200مربع میٹر جگہ خریدی ۔ گویا مسجد میں 164کنال کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس طرح 70 کنال اور 164کنال کو جمع کریں تو 234کنال یعنی مسجد 29ایکڑ سے زائد جگہ پر مشتمل ہوجاتی ہے ۔ پھر مزید زمینیں خریدکر مسجد میں شامل کی جاتی ہیں۔ اس وقت مسجد 85ایکڑ سے زائد رقبہ پر مشتمل ہے۔ اس جگہ پر کم و بیش10 لاکھ مسلمان ایک وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد نبوی شریف خوبصورت فن تعمیر کا عمدہ شاہکار ہے۔ مسجد کو دیکھیں تو انسان اس کی خوبصورتی میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ راقم الحروف کو ایک مرتبہ مسجد کے ایئر کنڈیشننگ سسٹم کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ ایک پاکستانی انجینیئر مجھے مسجد کے نچلے حصہ میں لے گئے۔ اس سسٹم کو سمجھنے اور تفصیل میں جانے کے لیے پورا مضمون درکار ہے۔ مسجد کے اس وقت 85سے زائد دروازے ہیں۔ ان میں کئی دروازے ڈبل اور کئی سنگل ہیں۔ آپ کبھی ان دروازوں کو غور سے دیکھیں اورسوچیں کہ ان پر کتنا مال خرچ کیا گیا ہے۔ میناکاری کو دیکھیں۔ مجھے ان معماروں اور نجاروں کی قسمت پر رشک آتا ہے جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا۔ مسجد نبوی میں میناروں کی شان و شوکت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کی بلندی 104میٹر ہے۔ مسجد کے چاروں اطراف میں صحن کو مزید وسیع کر دیا گیا ہے۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے دور میں ان پر الیکٹرانک چھتریاں نصب کردی گئی ہیں۔ فرش سفید پتھر کا ہے جو شدید گرمی میں بھی گرم نہیں ہوتا۔ مسجد نبوی شریف کی تاریخ لکھنے کے لیے بہت سارے صفحات درکار ہیں۔ بے شمار لوگوں نے ہر دور میں مسجد نبوی شریف کی تاریخ لکھی ہے۔ اگر ان کو اکٹھا کیا جائے تو نجانے کتنی مجلدات بن جائیں۔ خوش قسمت ہیں وہ حکمران جنہوں نے اس مسجد سے محبت کی، اس کی تعمیر وتزئین میں حصہ لیا۔ بلاشبہ سعودی حکمرانوں نے جس طرح حرمین شریفین کی خدمت کی ہے اور اس کی توسیع کی ہے، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آل سعود نے مسجد کی توسیع ہی نہیں کی بلکہ اس سے ٹوٹ کر محبت کی ہے۔ حجاج یا معتمرین کو جن سہولیات کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب میسر کر دی گئی ہیں۔