معصوم مراد آبادی
وزیراعظم نریندرمودی نے 2014ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پارلیمنٹ کی سیڑھیوں پر پیشانی رکھ کر یہ عہد کیا تھا کہ وہ سیاست اور پارلیمنٹ کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کردیں گے۔ قابل غور بات ہے کہ 2014ء کے انتخابات میں جن امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی، ان میں سے ایک تہائی ممبران کا ماضی داغ دار تھا۔ یعنی سولہویں لوک سبھا کے 542 ممبران میں سے 179 کے خلاف کرمنل کیس درج تھے۔
گزشتہ ساڑھے4سال کے عرصے میں وزیراعظم نریندرمودی نے نہ تو سیاست کو جرائم پیشہ لوگوں سے پاک کرنے کیلئے کوئی قدم اٹھایا ہے اور نہ ہی داغی ممبران پارلیمنٹ کیخلاف کوئی کارروائی کی گئی ہے۔ اب اس معاملے میں ملک کی سب سے بڑی عدالت نے سیاست کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے کیلئے دائر کی گئی ایک عرضی پر جو تبصرے کئے ہیں وہ کان کھڑے کردینے والے ہیں حالانکہ سیاست کو جرائم سے پاک کرنے کے معاملے میں عدالت عظمیٰ نے کوئی فیصلہ صادر نہیں کیا اور یہ ذمہ داری پارلیمنٹ کے کاندھوں پر ڈال دی ہے لیکن سیاست میں جرائم پیشہ عناصر کی شمولیت اور ان کے دبدبے کیخلاف جو تبصرے کئے گئے ہیں، وہ سب ہماری توجہ کے طالب ہیں ۔
عدالت نے سیاست میں بڑھتے ہوئے جرائم پیشہ عناصر کا موازنہ کینسر سے کیا ہے۔ عدالت نے حالات بے حد تباہ کن ہونے کی بات تو کہی لیکن اپنی حدود کا حوالہ دیتے ہوئے اس معاملے میں قانون سازی کی ذمہ داری پارلیمنٹ کے کاندھوں پر ڈال دی ہے۔
سپریم کورٹ نے جرائم پیشہ لوگوں کے سیاست میں حصہ لینے اور چناؤ لڑنے سے متعلق جو ہدایات جاری کی ہیں وہ حالانکہ بہت سخت ہیں، لیکن جب تک ان لوگوں کو سیاست اور قانون ساز اداروں کے انتخابات میں حصہ لینے سے روکا نہیں جاتا اُس وقت تک سیاست اور عوامی زندگی میں غنڈہ گردی کا پوری طرح خاتمہ نہیں ہوسکتا۔
آج صورتحال یہ ہے کہ سیاست اور قانون ساز اداروں میں ایسے لوگوں کی بھرمار ہے جو طاقت کے بل پر سب کچھ کرگزرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ سماج کے کمزور طبقوں کو ان جرائم پیشہ عناصر نے پوری طرح حاشیے پر پہنچادیا ہے اور جمہوریت اپنے معنی کھوتی چلی جارہی ہے۔ چونکہ یہاں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ بزوربازو ہی ہوتا ہے۔ سماج کے اندر ایسے لوگ سراٹھاکر جینے کا حوصلہ نہیں رکھتے جن کے پاس دولت ، اقتدار یا غنڈہ گردی کی طاقت نہیں ۔ سماج اور سیاست میں سب کچھ وہی لوگ طے کرنے لگے ہیں جن کے پاس ناجائز دولت ، سیاسی طاقت اور اقتدار ہے۔
المیہ یہ ہے کہ سیاست اور اقتدار کے ایوانوں تک ان جرائم پیشہ عناصر کو پہنچانے کا راستہ بھی ان ہی لوگوں نے دکھایا ہے جو ہماری سیاست کے اہم کردار رہے ہیں۔ پہلے پہل جرائم پیشہ عناصر نے اپنی بدکاریوں کی پردہ پوشی کیلئے سیاست دانوں کی پناہ حاصل کی اور ان پر پیسہ خرچ کرکے انہیں اپنا محافظ بنالیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ خود جرائم پیشہ عناصر نے سیاست میں اپنے لئے جگہ بنالی اور آج انہوں نے سیاست کو اپنے گھر کی لونڈی بنالیا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ سیاست اور اقتدار پر بڑی حد تک جرائم پیشہ عناصر کا قبضہ ہے اور ان کی مرضی کے خلاف سیاست داں کچھ کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ ملک کی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میںا س وقت جو 4896 ممبران موجود ہیں ان میں 1581یعنی 33فیصد ارکان داغ دار ماضی کے حامل ہیں۔ ان میں 21فیصد ممبران پارلیمنٹ ایسے ہیں جن کے خلاف سنگین مقدمات درج ہیں۔
سنگین جرائم میں ملوث عناصر کے الیکشن لڑنے پر پابندی عائد کرنے سے متعلق عرضی پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے جو کچھ کہا ہے، وہ اگرچہ کافی سے زیادہ ہے لیکن وہ اس سنگین مسئلے کا کوئی پائیدار حل پیش نہیں کرتا۔ چونکہ عدالت نے جس پارلیمنٹ پر اس سلسلے میں قانون بنانے کی ذمہ داری عائد کی ہے، وہاں خود ان ہی عناصر کا غلبہ جو سیاست کی جرم کاری سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور سب کچھ ناجائز دولت ، اقتدار اور غنڈہ گردی کے بل پر حاصل کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے ہر امیدوار کا مجرمانہ ریکارڈ صاف لفظوں میں ظاہر کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی قیادت والی5 ججوں کی آئینی بینچ نے کہاہے کہ’’ سیاست کی جرم کاری اور کرپشن ہندوستانی جمہوریت کی جڑوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ اس خطرے کو روکنے کیلئے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کرے تاکہ کرمنل کیس کا سامنا کرنے والے عناصر سیاسی گلیاروں میں داخل نہ ہونے پائیں اور سیاست میں جرائم کا خاتمہ ہوسکے۔‘‘ عدالت نے یہ بھی کہاکہ’’ جمہوریت میں شہریوں کو بے بس اور لاچار کی طرح پیش کرکے بدعنوانی کے تئیں گونگا، بہرا اور اندھا رہنے پر مجبور نہیں کیاجاسکتا۔‘‘ عدالت نے کہاکہ’’ قوم بے صبری کے ساتھ اس بات کا انتظار کررہی ہے کہ قانون ساز اور قانون بنانے والے خود اس بارے میں آگے آئیں اور قانون بنائیں۔ ‘‘
واضح رہے کہ موجودہ قانون کے مطابق5 برس یا اس سے زیادہ کی سزا پانے والے جرم میں قصور وار ثابت ہونے پر ہی کسی کو چناؤ لڑنے سے روکنے کا قانون ہے۔ سپریم کورٹ میں دائر کی گئی عرضی میں ایسے معاملوں میں الزامات طے ہوتے ہی چناؤ لڑنے کے نااہل قرار دینے کا مطالبہ کیاگیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے اس سلسلے کا قانون بنانے کا کام پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا۔ سپریم کورٹ نے کہاکہ ہر شہری کا یہ حق ہے کہ وہ انتخابی میدان میں اترنے والوں کے پچھلے ریکارڈ اور مجرمانہ ماضی کی معلومات اپنے پاس رکھے۔ جب امیدوار اپنے بارے میں تمام معلومات پوری طرح سے اجاگر کریں گے تو الیکشن زیادہ غیر جانب دار اور آزادانہ ہوں گے۔
عدالت نے اس معاملے میں جو رہنما ہدایات جاری کی ہیں ان کے مطابق سیاسی پارٹیاں اپنے امیدوار کی نامزدگی کے بعد کم سے کم 3 بار اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ان کے مجرمانہ ریکارڈ ووٹروں کے سامنے پیش کریں گی۔ سبھی پارٹیاں ویب سائٹ پر داغی عوامی نمائندوں کی تفصیلات پیش کریں گی تاکہ ووٹر اپنا فیصلہ خود کرسکیں۔ سب سے اصولی حالت یہ ہوگی کہ ووٹر کو اتنا بیدار کیاجائے کہ وہ خود ہی مجرمانہ شبیہ رکھنے والے امیدوار کو مسترد کردیں۔