مجاہد سید ۔ لکھنو
میں اس ہجوم میں تنہائی کی تلاش میں ہوں
جنوں سے بھاگ کے یکتائی کی تلاش میں ہوں
مکالمہ ہے میرا عکس و آئینے سے یہاں
چٹخ رہا ہوں پہ زیبائی کی تلاش میں ہوں
یہ دشت و کوہ تو رستہ بھی کم ہی دیتے ہیں
میں کس جگہ چمن آرائی کی تلاش میں ہوں
سماعتوں نے اٹھایا ہے بوجھ آنکھوں کا
سماعتوں کی جو بینائی کی تلاش میں ہوں
تھکائے رکھتی ہے مجھ کو یہ دم بدم یلغار
میں اپنی سانس کی پسپائی کی تلاش میں ہوں
یہ جسم و روح میرے کچھ تو کام آجائیں
تماشا گا ہ و تماشائی کی تلاش میں ہوں
تمام جذبوں کا مقتل رہا ہے جو سید
میں اس نگر میں مسیحائی کی تلاش میں ہوں