پی ٹی آئی کا گرتا عوامی گراف
اتوار 21 اکتوبر 2018 3:00
سید شکیل احمد
قائد حزب اختلا ف شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں بہت دھو اںدھا ر اور شعلہ انگیز تقریر کر ڈالی ، تبصرہ نگا رو ں نے کہا کہ شہباز شریف کی نیب کے بارے میں لفاظی نہیں بلکہ حقیقت تھی ۔انھو ں نے اپنی تقریر کے دوران مطالبہ کیا کہ نیب کی کا رکر دگی کے متعلق ایک جوائنٹ پارلیما رنی کمیٹی تشکیل دی جائے مگر وزیر قانو ن فروغ نسیم نے اس تجو یز کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ پارلیمنٹ نیب کے معاملا ت کو پرکھ نہیں سکتا کیو نکہ پا رلیمنٹ کوئی عدالت نہیں ، نیب خود مختار ادارہ ہے ، اس کے معاملا ت میںمداخلت نہیں کی جا سکتی۔ فروغ نسیم ممتاز قانون دان بھی ہیں اور سنگین غداری کیس میں وہ پر ویز مشرف کے وکیل ہیں۔عمر ان خان نے فروغ نسیم کو وہی محکمہ سونپ دیا ہے جو مشرف کے خلا ف سنگین غداری کیس میں استغاثہ کی حیثیت کا حامل ہے ۔اس طر ح فروغ نسیم کو اب اس سنگین غداری مقدمے کی ہر فائل تک رسائی حاصل ہو گئی ہے ۔
فروغ نسیم نے شہباز شریف کی جس تجو یز کو رد کیا ہے، اس بارے میں پی پی کے رہنما خورشید شا ہ نے بڑا مدلل جو اب دیا۔ انھوں نے کہا کہ جس طر ح عام انتخابات میں مبینہ دھاند لی کی تحقیقات کے لیے پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی تشکیل دی ہے، اسی طر ح نیب کے معاملا ت کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جا سکتی ہے ۔ وفاقی وزیر اطلا عات فواد چو ہدری نے بھی شہباز شریف کی تقریر پر جو ابی تقریر کی جس میں مو صوف نے تجویز دی کہ پا رلیمانی کمیٹی نہیں بن سکتی تاہم اپو زیشن نے نیب قوانین میں ترمیم کرنے اور ان کا جائزہ لینے کے جو تجو یز دی ہے، اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ حز ب اختلا ف اپنی تجویزیں حکومت کو دے ، یہ ایک اچھی پیشکش کی گئی ہے۔ اس مو قع سے حزب اختلا ف کو استفادہ کرلینا چاہیے کیو نکہ نیب کا ادارہ مشرف نے قائم کیا تھا جس کا مقصد اپنے مخالفین کے گرد گھیر ا تنگ کر نا تھا ۔ کا فی عرصہ سے محسوس کیا جا رہا تھا کہ اس کے قوانین کا جا ئزہ لیا جا ئے ۔ جہا ں تک فروغ نسیم کی طر ف سے رد کی بات ہے تو پھر الیکشن میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل نہیںدی جا سکتی کیو نکہ الیکشن کمیشن بھی نیب کی طر ح خود مختار بلکہ اس سے زیا دہ خود مختار ادارہ ہے۔گویا جس طر ح الیکشن کمیشن کی کا رکر دگی سے تعلق رکھنے والے معاملا ت کے لیے کمیٹی تشکیل ہو سکتی ہے تو نیب کے لیے بھی ایسا عمل کیا جا سکتا ہے ۔ نیب ، الیکشن کمیشن ، پو لیس یا کوئی سرکا ری ادارہ ہو ان کو خود مختاری اس لیے دی جا تی ہے کہ وہ کسی بیر ونی یا کسی اثر انگیز قوت کی مداخلت کے بغیر اپنے فرائض آئین اور قانو ن کے دائر ے میں انجا م دے۔ خود مختاری کا مطلب یہ نہیںکہ یہ خود مختار ادارے کوئی متوازی حکو مت ہو تے ہیں اور ان سے ان کی غلطیو ں پر حکومت باز پرس نہیں کر سکتی ۔ ان کی کا رکر دگی پر شکا یات کاجائزہ نہیں لیا جا سکتا ۔اگر ایسی کوئی قانو نی روک ہے تو پارلیمان کو چاہیے کہ وہ اس سقم کو دو ر کر دے تاکہ ایسے ادارو ں کے بارے میں جو شکا یات پائی جا تیں ہیں، وہ دور ہو جائیں اور عوام کو بھی ان کی غیر قانو نی دست برد سے تحفظ حا صل ہو ۔
موجود ہ حکومت کے قائد سیاسی پلیٹ فارم پر بھی طمطراق سے ادعا کیا کرتے تھے کہ وہ سب کچھ بدل کر رکھ دیں گے۔ اس بار ے میں وفاقی وزیر اطلاعات چو ہدری فواد حسین بھی دعوے کر تے ہیں۔ مثلا ًشہباز شریف کی قومی اسمبلی آمد پر بھی ان کے بدلاؤ کا دعویٰ ہے تاہم یا د رہے کہ اس سے پہلے 3 مرتبہ ایسا ہو چکا ہے۔ یو سف رضا گیلا نی اور شیخ رشید کو اسی طر ح پا رلیمنٹ کے اجلا س میں شرکت کے لیے جیل سے لایا گیا ۔ شہباز شریف کا نیب کی حوالا ت سے لایا جا نا کوئی انو کھی بات نہیں۔ حکومتیں سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے یا کھوکلے دعوؤں سے نہیں چلا کرتیں ۔ اس کے لیے زمینی حقائق کا ادراک لازمی ہے چنانچہ اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ پی ٹی آئی کی50روزہ حکمرانی میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کا گراف انہی حقائق سے آنکھ موندھ لینے کی وجہ سے نیچے آیا ہے جس کا ثبوت ضمنی انتخابات کے نتائج ہیںچنا نچہ اب آنکھ کھول لیناچاہیے ۔
زمینی حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ 25جو لائی کو برسراقتدار پی ٹی آئی نے جنرل الیکشن میں جو نشستیں جیتیں تھیں، اس میں سے 3 قومی اسمبلی اور 2پنجا ب اسمبلی کی نشستیں ہا ر دیں۔تقریباً ساری دنیا میں ایسا ہوتا آیا ہے کہ ضمنی انتخابات میں برسراقتدار جماعت اپنی چھو ڑی ہو ئی نشستیں بآسانی دوبارہ حاصل کر لیتی ہے جبکہ دوسری نشستیں بھی اس کے حصہ میں آجا تی ہیں۔ وزیر اعظم عمر ان خان نے دو تین قومی اسمبلی کی نشستیں چھوڑی تھیں جس میں سے ضمنی انتخابات میں 2نشستیں ان کے ہا تھ سے نکل گئیں۔ ان2ہا ری نشستو ں کے بارے میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا مو قف ہے کہ 2013کے انتخابات میں ایسا ہو ا تھا کہ پشاور کی چھو ڑ ی نشست ضمنی الیکشن میں ہا ر دی تھی ۔ دونو ں مرتبہ سے یہ ثابت ہو ا کہ پا کستان کے عوام اتنے باشعور ہیںکہ وہ کسی شہرت کے پیچھے نہیں جا تے یعنی کسی کھمبے کو ووٹ نہیں دیتے ۔وہ پر وگرام اور صلاحیت و اہلیت کا انتخاب کیا کر تے ہیں ۔
ان ضمنی انتخابات کے بارے میں دلچسپ حقائق بھی سامنے آئے ہیں۔ جہاں پی ٹی آئی کا عوام میں گراف گرتے محسو س کیا گیا وہاں 2013کے انتخابات کی بات بھی کھل گئی ۔وزیر اعظم نے بے دھڑک فرمایا ہے کہ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی حکومت نے کوئی مداخلت نہیں کی نہ انتظامیہ اور نہ الیکشن کمیشن کسی بھی ادارے پر اثر انداز ہونے کی سعی نہیں کی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار شفاف اور غیر جانبدار انتخابات ہوئے ہیں ۔ گویا اس سے پہلے کے تما م انتخابات شفاف اور غیر جانبدار نہ تھے ۔پی ٹی آئی کے وزراء بھی فرما رہے ہیں کہ حکومت نے مکمل شرافت کا ثبوت دیا اور کسی قسم کی مداخلت کے بغیر ضمنی انتخابات منعقد کروائے ۔بہر حا ل جو بھی کوئی دعویٰ کر ے وہ اپنی جگہ البتہ حقیقت یہ ہی ہے کہ جن4 حلقوں کو لے کر عمر ان خان نے 126 دن دھرنا دیا تھا، وہ ہی حلقے آج بھی مسلم لیگ ن کے پا س ہیں۔ سابق وزیر اعظم کے بھی ضمنی انتخابات کے بارے میں تبصرہ قابل توجہ ہے کہ ضمنی انتخابات نے مستقبل کی منزل کی نشاند ہی کر دی ہے ۔