چھٹیاں ختم، ڈیوٹی کے پہلے دن کا ڈپریشن کیسے ختم کریں؟
چھٹیاں ختم، ڈیوٹی کے پہلے دن کا ڈپریشن کیسے ختم کریں؟
اتوار 6 اپریل 2025 10:49
سعودی عرب میں آج اتوار کو تمام سرکاری و نجی دفاتر سمیت سکول کھل گئے اور عید کی چھٹیاں ختم ہوگئیں جبکہ خلیجی ممالک سمیت پاکستان اور دیگر ممالک میں کل سے ڈیوٹی شروع ہے۔
سبق ویب سائٹ کے مطابق عام طور پر چھٹیوں کے بعد ڈیوٹی کا پہلا دن کافی بھاری پڑتا ہے جبکہ دل میں افسردگی، مایوسی اور غم کی سی کیفیت ہوتی ہے۔
نفسیاتی ماہرین کی اصطلاح میں اسے ’چھٹیوں کے بعد کا ڈپریشن‘ کہا جاتا ہے جو بین الاقوامی تسلیم شدہ ذہنی کیفیت ہے۔
دنیا کے بڑے طبی اور نفسیاتی ادارے اس کیفیت کو ذہنی دباؤ، مایوسی اور حوصلے کی کمی کے امتزاج کے طور پر تسلیم کرتے ہیں جو مکمل آرام سے اچانک سخت نظام الاوقات اور کام کے دباؤ کی طرف منتقلی سے پیدا ہوتا ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس کیفیت کی بڑی وجہ زندگی کی رفتار میں اچانک تبدیلی، ذاتی آزادی کا ختم ہو جانا اور چیلنجز سے بھرپور کام کے ماحول میں واپسی ہے۔ بعض اوقات روٹین کی طرف واپسی کا خوف چھٹی ختم ہونے سے کئی دن پہلے ہی شروع ہو جاتا ہے کیونکہ یہ خیالات آرام کے آخری لمحات کو بھی برباد کر دیتے ہیں۔
’یہ کیفیت مکمل آرام سے اچانک سخت نظام الاوقات اور کام کے دباؤ کی طرف منتقلی سے پیدا ہوتی ہے‘ ( فوٹو: ارم)
ری چارج ڈے: بعض عالمی کمپنیوں میں چھٹی کے بعد کام پر واپسی اب کوئی پریشانی نہیں بلکہ خوشی کا لمحہ بن چکی ہے۔
ایسی کمپنیاں اپنے ملازمین کو ہر ماہ ’ری چارج ڈے‘ دیتی ہیں جس میں ملازمین باہمی تعارف، گپ شپ اور تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں۔
بعض سعودی کمپنیوں میں عید کی چھٹی کے بعد ڈیوٹی کا پہلا دن عید ملن کی تقریب کے لیے مخصوص ہوتا ہے جس میں کمپنی کے اعلی افسران اور تمام ملازمین کھانا کھاتے ہیں اور گپ شپ کرتے ہیں۔
بعض کمپنیوں میں چھٹی کے بعد پہلا دن ’نرم واپسی‘ کا ہوتا ہے جس میں ملازمین کو کوئی کام نہیں دیا جاتا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق ان اقدامات سے ملازمین کی خوشی میں 23 اضافہ ہوتا ہے، دباؤ میں کمی آتی ہے اور ملازمین کی توجہ اور یکسوئی بہتر ہوتی ہے۔
’نفسیاتی ماہرین کی اصطلاح میں اسے ’چھٹیوں کے بعد کا ڈپریشن‘ کہا جاتا ہے جو بین الاقوامی تسلیم شدہ ذہنی کیفیت ہے‘ ( فوٹو: سیدتی)
واپسی کو خوشگوار بنا ئیں کچھ ادارے دلچسپ آئیڈیاز اپناتے ہیں، جیسے ’وہیل آف بریک فاسٹ‘ جس میں ملازم کو اُس کا ناشتہ اُس وقت معلوم ہوتا ہے جب وہ ’صندوقِ واپسی‘ کو گھماتا ہے، جس میں اُس کے نام کا مگ یا فینسی چاکلیٹ ہو سکتی ہے۔ کچھ محکموں میں مزاحیہ آواز میں ’انٹرنل ریڈیو‘ نشر کی جاتی ہے جس میں فرضی خبریں یا عید کے دلچسپ واقعات سنائے جاتے ہیں۔ سب سے لمبی ہنسی کا چیلنج یا واپسی کا ہیرو جیسے مقابلے بھی ہوتے ہیں، جہاں وہ ملازم جو سب سے پہلے مسکرا کر پہنچے یا سب کو میسج کر کے عید مبارک کہے، اُسے اعزاز دیا جاتا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی تفصیلات دفتر کے ماحول کو خاندان جیسا بنا دیتی ہیں۔
خود کو واپسی کے لیے تیار کریں چھٹی کے بعد نئے جذبے کے ساتھ دفترواپسی کا حوصلہ نفسیاتی اور عملی ضرورت ہے، ماہرین چند اہم تجاویزپیش کرتے ہیں:
واپسی کی صبح کسی پسندیدہ چیز سے آغاز کریں، جیسے خاص کافی، دفتر سے پہلے سیر یا اپنی پسندیدہ پلے لسٹ۔
دفتر بعد کے کوئی دلچسپ سرگرمی رکھیں تاکہ توازن قائم رہے۔
دن کی شروعات ایک آسان اور مکمل ہونے والی ٹاسک سے کریں تاکہ فوری اطمینان ملے۔
اپنے کام کی تین مثبت چیزیں لکھیں جن پر آپ شکر گزار ہوں۔
اپنے نئے اہداف ساتھیوں کے ساتھ شیئر کریں تاکہ مثبتیت اور رابطہ بحال ہو۔
’ڈیوٹی کا پہلا دن کافی بھاری پڑتا ہے جبکہ دل میں افسردگی، مایوسی اور غم کی سی کیفیت ہوتی ہے‘ ( فوٹو: سبق)
بیالوجی گھڑی کو دوبارہ ترتیب دیں مشہور مصنفہ ڈاکٹر لینا جراراد یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے لیے کئی مفید مشورے دیتی ہیں جودفتری ملازمین کے لیے بھی مفید ہیں:
دن کا آغاز قابلِ حصول چھوٹے اہداف سے کریں۔
کاموں کو ترجیحی بنیاد پر ترتیب دیں اور ہر کامیابی کو، چاہے چھوٹی ہو، ضرور منائیں۔
سونے اور جاگنے کا معمول بحال کریں تاکہ ذہنی ارتکاز میں بہتری آئے۔
دن میں ذہنی ری سیٹ کے لیے وقفے لیں، جیسے گہری سانسیں، چھوٹے وقفے یا تازہ ہوا میں نکلنا۔
’جو آرام کرنا جانتا ہے، وہ مؤثر طریقے سے لوٹنا بھی جانتا ہے، فرق صرف نیت، تیاری اور سوچنے کے انداز کا ہے‘ ( فوٹو: الیوم السابع)
پومودورو تکنیک: ڈاکٹر جرارّاد ’پومودورو تکنیک‘ کی بھی ہدایت دیتی ہیں جس میں 25 منٹ مکمل توجہ سے کام کیا جاتا ہے اور پھر 5 منٹ کا وقفہ لیا جاتا ہے۔
یہ تکنیک ارتکاز بڑھاتی ہے اور ذہنی تھکن کو کم کرتی ہے۔ وہ خود سے نرمی برتنے کی اہمیت پر بھی زور دیتی ہیں، واپسی امتحان نہیں بلکہ تدریجی سفر ہے۔ وہ تجویز کرتی ہیں کہ کام یا تعلیم کے پیچھے موجود ’بڑے مقصد‘ کو روز یاد رکھیں اور اسے کسی بصری شکل میں محفوظ رکھیں تاکہ یہ تحریک کا ذریعہ بنے۔
ٹریفک کا ازدحام، پہلا امتحان: شہری حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ریاض ہو یا جدہ یا دبئی یا کراچی و اسلام آباد، ٹریفک کا رش، خاص طور پر واپسی کے دنوں میں اعصاب کا امتحان بن جاتا ہے۔ رِنگ روڈز پر گاڑیاں جمع ہو جاتی ہیں اور کچھ علاقوں میں سفر کا وقت ایک گھنٹے سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ یہ رش نہ صرف وقت لیتا ہے بلکہ دن کی شروعات سے پہلے ہی ملازم کی ذہنی توانائی کو ختم کر دیتا ہے۔ اسی لیے کچھ ادارے سمارٹ حل اپنانے لگے ہیں جیسے دفتر کے اوقات میں لچک، جزوی ریموٹ ورک اور مشترکہ سواری کے انتظامات۔
’25 منٹ مکمل توجہ سے کام کیا جاتا ہے اور پھر 5 منٹ کا وقفہ لیا جاتا ہے‘ ( فوٹو: الاہرام)
واپسی عید کا اختتام نہیں واپسی کو عید کا خاتمہ نہ سمجھیں بلکہ اُس کا عملی تسلسل سمجھیں۔
جو آرام کرنا جانتا ہے، وہ مؤثر طریقے سے لوٹنا بھی جانتا ہے۔ فرق صرف نیت، تیاری اور سوچنے کے انداز کا ہے۔ واپسی ایک نیا آغاز ہو سکتی ہے، اگر ہم سمجھیں، زندگی کی رفتار کو پھر سے ترتیب دینے کا، نظام کو بحال کرنے کا اور کام کو روز مرہ بوجھ کے بجائے جینے کا ڈھنگ بنانے کا۔
تو کیوں نہ ہفتے کی یہ ابتدا، ایک نئی روح کی ابتدا ہو۔