* * * *مولانا محمد عابد ندوی،جدہ * * *
ماہِ صفر کو آج بھی بعض نادان منحوس تصور کرتے ہیں۔ اس مہینے میں بعض لوگ شادی بیاہ یا کوئی خوشی کی تقریب منعقد نہیں کرتے۔ اس سے بُرا شگون لیتے ہیں جب کہ شرعاً اس کی کوئی حقیقت نہیں ۔ کسی سے اچھا گمان کرنے اور نیک فال لینے کی تو گنجائش ہے لیکن بُرا شگون لینا اسلام میں جائز نہیں ، یہ شرک کا دروازہ ہے۔ احادیث میں بدفالی و بدشگونی کو شرک کہا گیا ہے ، اس کی سرحدیں جب شرک سے ملتی ہیں تو ظاہر ہے اسلام سے قبل بھی بدفالی و بدشگونی اورنحوست کا تصور پایا جاتا تھا۔ قوم فرعون کے بارے میں قرآن پاک میں یہ صراحت ہے کہ:
جب ان پر خوشحالی آجاتی تو کہتے کہ یہ تو ہمارے لئے ہونا ہی چاہئے اور اگر ان کو کوئی بدحالی پیش آتی تو موسیٰ(علیہ السلام)اور ان کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے ، یاد رکھو کہ ان کی نحوست اﷲ تعالیٰ کے پاس ہے لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (الاعراف131)
حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ، ثمود کے بارے میں بھی اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وہ کہنے لگے ہم تو تیری اور تیرے ساتھیوں کی بدشگونی لے رہے ہیں ، آپ نے فرمایا تمہاری بدشگونی اﷲ کے ہاں ہے بلکہ تم فتنہ میں پڑے ہوئے لوگ ہو۔ ( النمل47)
اسی طرح ایک اور قوم کے بارے میں بھی مذکور ہوا کہ انھوں نے رسولوں سے کہا کہ ہم تو تم کو منحوس سمجھتے ہیں۔( یٰسین 18) گویا ہر دور میں اہل کفر و شرک کا یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ بدحالی ، قحط سالی اور آفات و مصائب کو اﷲ کے نبیوں اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں کی (نعوذ باﷲ ) نحوست قرار دیتے رہے ہیں جب کہ اسلامی تعلیمات اور عقیدۂ توحید سے اس کا کوئی جوڑ نہیں۔ قرآن پاک میں کئی جگہ اس حقیقت کو واضح کیا گیا کہ لوگوں کو جو بھی مصیبت یا آفت پہنچتی ہے ،وہ ان کے کفر و شرک اور بد اعمالیوں کے سبب ہی ہوتی ہے تاکہ وہ اس سے باز آجائیں اور اﷲ کی طرف رُجوع ہوکر اس سے معافی مانگیں ۔ ( ملاحظہ ہو : الروم 41 ، الشوریٰ30)
عربوں میں بھی بدفالی و بدشگونی عام تھی، وہ بھی ماہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے ۔ اسلام نے اس تصور کو باطل قرار دیا اور رسول اﷲنے سختی سے اس کی تردید فرمائی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ، رسول اﷲ کا یہ ارشاد گرامی نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: چھوت چھات کوئی چیز نہیں ، بدشگونی کوئی چیز نہیں ، ہامہ ( اُلو سے بدشگونی لینا ) اور صفر ( ماہ صفر کو منحوس سمجھنا ) کوئی چیز نہیں۔ (متفق علیہ )
اسی طرح ایک موقع پر رسول اﷲ نے ایک عمدہ مثال کے ذریعہ چھوت چھات کی تردید فرمائی ، حضرت عبد اﷲ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا:
کوئی چیز متعدی نہیں ۔
ایک دیہاتی نے کہا :یا رسول اﷲجب کسی اونٹ کو خارش لگتی ہے تو وہ سب اونٹوں کو خارش زدہ کردیتا ہے ۔
رسول اﷲنے ارشاد فرمایا :
اگر ایسا ہے تو پھر پہلے اونٹ کو کس نے خارش زدہ کیا ؟ کوئی بیماری متعددی نہیں ( اور وہ کسی کو اس وقت تک نہیں لگتی جب تک اﷲ نہ چاہے ) پرندوں سے فال لینے ، اسی طرح اُلو اور ماہ صفر کی نحوست کی کوئی حیثیت نہیں ، اﷲ تعالیٰ نے ہر نفس کو پیدا کیا اور اس کی زندگی ، اس کے مصائب اور اس کی روزی لکھ دی ۔ ( ترمذی ، ابوداؤد )
ان احادیث میں رسول اﷲنے زمانۂ جاہلیت میں پائے جانے والے بعض غلط عقائد اور خیالات کی تردید کی ہے کہ یہ صحیح نہیں اور اسلامی عقائد کے بالکل خلاف ہیں ۔ ان میں ایک یہ ہے کہ کوئی بیماری بذات خود متعددی اور مؤثر نہیں کہ وہ کسی پر اثر انداز ہوسکے ، جو بھی ہوتا ہے اﷲ کے فیصلے اور تقدیر کے مطابق اس کی مشیت سے ہوتا ہے ۔یہاں کسی کو یہ سوال اور شبہ ہوسکتا ہے کہ میڈیکل سائنس یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ بعض بیماریاں متعدی ہوتی ہیں اور وہ بیمار شخص سے اختلاط کی صورت میں دوسرے تندرست آدمی کو بھی لگ جاتی ہیں ، نیز تجربہ اورمشاہدہ سے بھی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے ۔ خود احادیث میں بھی بعض بیماریوں میں مبتلا افراد سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ مثلاً طاعون زدہ شہر میں داخل ہونے اور جذامی شخص کے قریب ہونے سے روکا گیا ۔ایک موقع پر آپنے ارشاد فرمایا:
جذامی سے ایسے بھاگو جیسے تم شیر سے بھاگتے ہو ۔
اگر یہ بیماریاں تندرست افراد کو نہ لگتی ہوں تو ایسے بیماروں سے دور رہنے کی تاکید اور تلقین کیوں ؟ اس سلسلے میں اہل علم نے یہ وضاحت فرمائی کہ کوئی بیماری بذات خود متعددی اور مؤثر نہیں ، اصل چیز اﷲ کا فیصلہ اور اس کی مشیت ہی ہے ۔
ہاں کبھی یہ چیز یعنی بیمار سے اختلاط اور اس کا قرب سبب بن سکتا ہے اور اسباب کا پیدا کرنے والا بھی اﷲ تعالیٰ ہی ہے نہ کہ کوئی اور ۔ بندوں کو اس بات کا حکم دیا گیا اور وہ اس کے مامور ہیں کہ برائی ، ہلاکت اوربیماری کے اسباب سے دور رہیں ۔ اسی طرح ایسے بیماروں سے اختلاط اور منع کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص طاعون زدہ شہر میں داخل ہو یا جذامی کے قریب جائے ، پھر اﷲ کی مشیت اور اس کے فیصلے سے وہ بیمار ہوجائے یا ہلاک ہوجائے تو اس شخص کے یا دوسرے کسی شخص کے عقیدہ میں یہ فتور آسکتا ہے کہ اگر یہ شخص فلاں شہر نہ جاتا یا فلاں بیمار کے قریب نہ جاتا تو نہ بیمار ہوتا اور نہ ہلاک ہوتا ۔
ظاہر ہے یہ تصور اسلامی عقیدہ کے خلاف ہے ۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ موت کا ایک وقت متعین ہے جو نہ ایک لمحہ پہلے آسکتی ہے اور نہ ایک لمحہ بعد ، اسی طرح بیماری اور مصیبت کا دینے والا بھی اﷲ ہی ہے ، جب تک اﷲ کا فیصلہ نہ ہو کوئی شخص بیماری اورمصیبت میں گرفتار نہیں ہوسکتا ، ہاں اس بیماری یا مصیبت میں خود انسان کے اپنے اعمال ، گناہ اور دوسری بہت ساری چیزیں سبب بن سکتی ہیں۔ انسان چوںکہ کمزور واقع ہوا ہے ، اس لئے ایسے اسباب کو اختیار کرنے سے خصوصیت کے ساتھ روکا گیا جو اس کے عقیدہ کے بگاڑ کا بھی سبب بنیں چنانچہ جن کا ایمان اور قضاء و قدر پر یقین پختہ ہو ، اﷲ پر توکل اور بھروسہ کامل ہوتو ایسے صاحب ایمان و یقین بندے کبھی متعدی امراض والے بیماروں کے ساتھ رہتے اوران کے ساتھ کھاتے پیتے بھی ہیں۔ خود نبی کریمکے بارے میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے ایک جذامی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھایا ، اپنے برتن میں اس کا ہاتھ داخل کرکے فرمایا کہ اﷲ کا نام لے کر اور اس پر اعتماد اور توکل کرتے ہوئے کھاؤ ۔( ترمذی ، ابوداؤد ) اسی طرح بعض صحابہ کرامؓ کے بارے میں بھی ایسا منقول ہے ۔
زمانۂ جاہلیت میں عرب پرندوں سے فال لیتے تھے ، اُلو کو منحوس تصور کرتے تھے ، آج بھی لوگوں میں طرح طرح سے بُرا شگون لینے کا رواج ہے ، مثلاً کسی کام کے لئے گھر سے باہر نکلتے وقت سامنے سے بلی گزرجائے یا چھینک آجائے تو وہمی شخص اس سے بُرا شگون لیتے ہوئے وہ کام نہیں کرے گا یا بعض لوگ کوے کو دیکھ کر بُرا شگون لیتے ہیں۔
ان سب کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں ۔برا شگون لیتے ہوئے کسی کام سے رُک جانے کو’’ شرک ‘‘ کہا گیا ، اگر کبھی ایسا خیال آئے بھی تو یہ تعلیم دی گئی کہ آدمی بدشگونی کے سبب کام سے نہ رُکے بلکہ اﷲ پر توکل اور بھروسہ کرتے ہوئے وہ کام کر گزرے ، نیز ایسے موقع پر جب کوئی شخص ناپسندیدہ چیز دیکھے یا بدفالی و بدشگونی کا خیال آئے تو ایک بہترین دُعاء کی تلقین بھی کی گئی ، حضرت عبد اﷲ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲنے ارشاد فرمایا:
بدشگونی کے سبب جو کوئی کسی کام سے رُک گیا اس نے شرک کیا ۔
صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ اس کا کفارہ کیا ہے ؟ آپنے فرمایا:
(ایسے موقع پر ) یہ کہنا چاہئے :
اللہم لا خیر إلا خیرک ولا طیر إلا طیرک ولا إلہ غیرک
’’ اے اﷲ ! تیری بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں ، کوئی شگون نہیں مگر آپ ہی سے اورآپ کے سوا کوئی معبود نہیں ‘‘ ( مسند احمد ، ابوداؤد )
ایک دوسری روایت میں یہ دعا پڑھنے کا بھی ذکر ہے :
اللہم لا یاتی بالحسنات إلا انت ولا یدفع السیئات إلا انت ولا حول ولا قوۃ إلا بک
’’ اے اﷲ ! آپ کے سوا کوئی بھلائی عطا نہیں کرتا اور نہ کوئی برائی کو آپ کے سوا دور کرسکتا ہے ، حصول نفع کی کوئی طاقت اور ضرر کو دفع کرنے کی کوئی قوت آپ کے سوا کسی میں نہیں ‘‘ ۔
ماہ صفر اﷲ تعالیٰ کے مقرر کردہ 12 مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے ، سال کے 12 مہینوں میں بعض کو بعض پر فضیلت و برتری تو حاصل ہے لیکن کوئی مہینہ اور وقت منحوس نہیں۔ یہ تصور اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے ۔
وقت اور زمانہ تو اعمال بنی آدم کا ذریعہ ہے ، اسی میں انسان نیکی بھی کرتا ہے اور برائی بھی۔ پس جس وقت کو بندۂ مومن اﷲ کی اطاعت میں گزاردے وہ اس کے حق میں مبارک زمانہ ہے اور جس زمانہ میں گناہ کا ارتکاب اور اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کرے ، وہی زمانہ اور وقت اس شخص کے حق میں منحوس ہے ۔گویا حقیقت میں نحوست کی چیز اﷲ کی معصیت و نافرمانی ہے ، حضرت عبد اﷲ بن مسعودؓسے منقول ہے کہ اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو زبان میں ہوتی اور فرمایا کہ زبان سے زیادہ کوئی شے طویل عرصہ تک قید وبند کی محتاج نہیں۔ (کیوںکہ بے شمار گناہوں کا تعلق اسی زبان سے ہے ) ماہ صفر کی بعض تاریخوں میں خاص رسمیں بھی جاہل عوام میں رائج ہیں۔
وہ تمام رسمیں غیر شرعی اور بدعات ہیں ، ان سے اجتناب ضروری ہے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ماہ صفر یا کوئی بھی مہینہ اوروقت منحوس نہیں۔ اسی طرح کسی بھی چیز سے بُرا شگون لینا شرعاً درست نہیں بلکہ شرک کی طرف لے جانے والا راستہ ہے ۔ اﷲ تعالیٰ ہمارے عقیدہ و عمل کی اصلاح فرمائے اور رسول اﷲ کی سنتوں پر چلنے والا بنائے ۔ آمین