Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آسیہ بی بی: پھانسی دی جائے یا معاف کیا جائے؟

صلاح الدین حیدر۔ کراچی
 
جس طرح آسیہ بی بی کو سپریم کورٹ سے رہائی ملی، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ شاید مغربی ممالک کے لئے اسلام کو بدنام کرنے کا ایک اور بہانہ ہاتھ آجائے۔
آسیہ بی بی بدھ کی شام کو ملتان جیل سے رہا ہوئی لیکن محفوظ مقام میں ہے۔ اس کا شوہر اور 8 سالہ پرانا وکیل ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ ہالینڈ کا سفارت خانہ اس کے استقبال کے لیے جیل کے باہر موجود تھا لیکن حکومتی اہلکاروں نے انہیں اس سے روک دیا۔آسیہ کی ملک سے چلے جانے کی خبریں افواہوں پر مبنی ہیں۔مذہبی امور، وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی اور وزارت خارجہ کے ترجمان تینوں نے اس بات کو بار بار دہرایا کہ آسیہ بحفاظت پاکستان میں ہی موجود ہے اور کہیں نہیں گئی۔ 
سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب رسول مقبول نے اپنے اوپر غلاظت پھینکے والوں اور ان کی ذات مبارک پر گالیوں کی بوچھاڑ کرنے والوں تک کو معاف کردیا اس لیے کہ اسلام ہمیں عفوو درگزر کا سبق سکھاتا ہے، بدلہ لینا کا نہیں پھر یہ علماء آخر اس قدر بدلے کی آگ میں کیوں جلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ آج بھی جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کراچی میں ایک جلوس نکالا جس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا گیا اور آسیہ کے لیے پھانسی کے پھندے کا مطالبہ کیا ۔ سوال یہ ہے کہ کہاں گیا ہمارا دین اور کہاں گئے دین کے احکام۔ 
 

شیئر: