یوسف الدینی۔ الشرق الاوسط
سعودی صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت کے بعد برپا ہونیوالے سیاسی بحران نے ہمیں ایک بار پھر ایسے منظر کے سامنے لیجاکر کھڑا کردیا جو کسی بھی سیاسی بحران کے بعد برپا ہوتا ہے اور ایک طرح سے ہم اس کے عادی سے ہوگئے ہیں۔عراق کے خلاف لشکر کشی کے بعد مغربی میڈیا نے عراقی نظام کے حوالے سے بہت سارے ایسے دعوے کئے جنہیں مسلمہ حقائق کے طور پر پیش کیا گیا۔ آگے چل کر پتہ چلا کہ مغربی میڈیا جو دعوے مسلمہ حقائق کے طور پر پیش کررہا تھا وہ سب من گھڑت قصے تھے۔ 11ستمبر کے طیارہ حملوں کے فوری بعد بھی یہی منظر نامہ دیکھنے کو ملا۔طیارہ حملوں کے فوراً بعد حملہ آوروں کی قومیتیں ظاہر کی گئیںاور مخصوص ممالک سے طیارہ حملوں کا رشتہ جوڑ دیا گیاحالانکہ سب لو گ یہ بات جانتے ہیں کہ مسلح تشدد کی علمبردار تنظیمیں نہ صرف ریاست سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ وہ کسی بھی ریاست کے نظام کو تہ و بالا کرنے میں یقین رکھتی ہیں اور ریاستی نظام کو اپنا قریب ترین دشمن گردانتی ہیں۔عرب ممالک میں ’’بہار ‘‘کی لہر چلی ۔مغربی ممالک نے عرب لہر سے سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے عرب ممالک میں سیاسی اسلام کی سازش سے جوڑدیاحالانکہ مغربی ممالک یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ مقدس آمریت ،سیاسی نظام میں یقین رکھنے والے ریاستی نظام سے کہیںزیادہ پُرخطر ہوتی ہے۔
ہر بحران کے حوالے سے ایک مشکل یہی پیش آتی ہے کہ مغربی ممالک خصوصاً انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بین الاقوامی ادارے واقعہ کا رخ اپنے ایجنڈے کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ انسانی حقوق کے مخصوص تصور کو رائج کرنے کیلئے درپیش واقعے سے ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
تازہ ترین بحران جمال خاشقجی کے قتل کے واقعہ کا سامنے آیا۔اس بحران نے بھی تضادات کو اجاگر کیا۔ مثال کے طور پر سیاست اور ابلاغ دونوں نے مل جلکرخاشقجی کی موت کے واقعے کی بابت افواہیں پھیلائیں ، جھوٹی اطلاعات جاری کیں،ترکی کے بعض ذرائع ابلاغ اور الجزیرہ چینل نے دہشتگردوں کو خاشقجی کے مسئلے پر اظہار خیال کیلئے مدعو کیا۔ ان شخصیات نے نہ صرف یہ کہ پوری ریاست اور اس کے ارباب کیخلاف کفر کے فتوے جاری کئے بلکہ حکومت کا تختہ الٹنے اور حکمرانوں کیخلاف بغاوت پر عوام کو اکسایا۔ ہم نے الجزیرہ چینل کے ارباب کو انتہاپسندی اور دہشتگردی کے پیغام تخلیق کرتے ہوئے پایا۔انہوں نے مغربی تمدن یا مغربی ممالک کے حوالے سے تباہ کن تصورات والی تصنیفات اور شخصیات کو اجاگر کیا۔ انہوں نے داعش تنظیم کی حمایت کو ناگزیر قراردیا۔ انہوں نے دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ مکالمے کا جواز یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ مغربی صلیبی دنیا کے مقابلے میں ہم سے زیادہ قریب ہیں۔ سچی بات یہی ہے کہ خاشقجی کے بحران کے موقع پر جو کچھ دیکھنے میں آیا وہ مشکوک بھی ہے اور مقرر بحران بھی۔ اس واقعہ نے سیاسی اسلام اور انتہا پسندانہ شخصیتوں کے درمیان اتحاد کو جنم دیا۔
انتہا پسندوں اور مخصوص ایجنڈا رکھنے والے سیاست دانوں نے مستحکم حکو متوں کیخلاف اشتعال انگیز سیاسی زبان استعمال کی۔ واشنگٹن پوسٹ جیسے امریکی جریدے نے دہشتگرد حوثی کے افکار کی ترویج کیلئے اپنے صفحات پیش کردیئے۔ الجزیرہ چینل نے مسلح تبدیلی اور دہشتگردی کو فروغ دینے والی تکفیری شخصیات کی میزبانی میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔
ایسا لگتا ہے کہ انتہا پسندی کے تخلیق کاروں ، نفرت کے علمبرداروں اور خود غرض سیاستدانوں کے درمیان گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ انقلابات کے زمانے میں جو بات کہی گئی تھی وہی صادق آرہی ہے کہ مشرق وسطیٰ معقولیت کھوچکا ہے اور یہ نامعقول افکار اور ناقابل فہم سیاسی رویوں کا اکھاڑا بن گیا ہے۔
کسی بھی اندوہناک واقعے پر پہلا ردعمل نامعقول گفتگو سے کیا جانا انتہائی افسوسناک بات ہے ۔ کسی حد تک یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ نامعقول رد عمل ناگہانی طور پر ظاہر کردیا جائے لیکن سیاسی نامعقولیت کا اکھاڑا قائم کردیا جائے یہ کسی طور قابل فہم نہیں۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ فضولیات کا جواز پیش کیا جائے اور اس پر خاموشی اختیار کرکے صورتحال کو دھماکہ خیز بنا دیا جائے۔