Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فوج کا بیان غور و فکر کی دعوت دے رہا ہے

کراچی (صلاح الدین حیدر) آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ کا تازہ ترین بیان بہت معنیٰ خیز ہے۔ ان کا شد و مد سے قوم کو احساس دلانا کہ منفی پروپیگنڈہ سے ملکی صورت حال کا رخ مذہبی، لسانی، سماجی بغاوت کی طرف کیا جارہا ہے۔ وہ بھی ایسے وقت پر جب انتخابات کے نتیجے میں ایک نئی حکومت برسراقتدار آچکی ہے۔ ان کا یہ بیان غور و فکر کی کھلی دعوت کے مترادف ہے۔ ان کا اصل مقصد کیا تھا؟ یہ تو فی الحال نہیں معلوم لیکن بیان یقینا چونکا دینے والا ہے کہ آخر اس کی ضرورت کیوں پڑی؟ وہ بھی یہ کسی کور کمانڈر کے اجلاس میں نہیں دیا گیا بلکہ نیشنل سیکیورٹی کونسل کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ معنی و مقصد تو کئی نکالے جاسکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ملک میں پائی جانے والی بے چینی کے تدارک کی طرف اشارہ ہو یا پھر جس طرح تحریک لبیک پاکستان نے پہلے بھی اور ابھی کچھ روز قبل دھرنا دیا تھا۔ ناموس رسالت کے نام پر اس سے امن و امان کو خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ اس کی روک تھام بھی ضروری ہے تو کیا آرمی چیف کا خیال ادھر بھی گیا ہوگا؟ ظاہر ہے اگر ملکی معیشت صحیح سمت میں نہیں چل رہی ہے تو عوام میں بے چینی پیدا ہوگی۔ اس کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی لیکن اب تک جو حالات رہے ہیں وہ تو ایک ہی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ افواج پاکستان اور عدالت عالیہ، خاص طور پر عدالت عظمی نئی حکومت کے ساتھ نظر آتی ہے۔ اب کچھ درمیان میں ہوگیا ہو تو کچھ کہہ نہیں سکتے۔ اکثر و بیشتر مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ عمران خود تو بہت محنت اور لگن سے کام کررہے ہیں لیکن ان کی ٹیم میں ضرور کچھ خامیاں ہیں جس کی وجہ سے افتاد عمران پر آپڑتی ہے۔ جنرل باجوہ کا یہ جملہ کہ ذمہ داریاں پہلے سے بڑھ گئی ہیں۔ عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کو منفی اور جارحانہ پروپیگنڈا سے آگاہ رہنا ہوگا کس سمت کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ قومی سلامتی ہر بات پر مقدم ہے۔ ملک سلامت رہے۔ امن و امان رہے تو اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ سماجی بغاوت کے معانی ڈھونڈنا پڑیں گے۔ ہو سکتا ہے ان کا اشارہ سوشل میڈیا کی طرف ہو جس پر اکثر واہیات قسم کی باتیں پھیلائی جاتی ہیں جو کسی کے مفاد میں نہیں۔
 

شیئر: