Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آپ ﷺ ، کائنات میں سب سے شجاع اور بہادر

 اس بھگڈر میں بھی اللہ کے رسول کی سواری کا رخ کفار کی طرف ہے، آپ پیچھے ہٹنے کی بجائے آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں

 

عبدالمالک مجاہد۔ ریاض

سیدنا انس بن مالکؒ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول   لوگوں میں سب سے بہترین تھے۔ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر تھے۔
    ایک مرتبہ رات کے وقت مدینہ شریف میں لوگ سوئے ہوئے تھے کہ انہوں نے کچھ آواز سنی ۔ لوگ گھبرا کر اٹھے۔ خطرہ تھا کہ کہیں مدینہ پر شب خون نہ پڑ جائے۔ دشمن حملہ نہ کردے۔ لوگ باہر کی طرف جارہے ہیں تاکہ اس آواز کے مصدر کا علم ہوسکے کہ کہیں دشمن مدینہ پہ حملہ کرنے نہیں آگئے لیکن صحابہ حیرانگی کے عالم میں دیکھ رہے ہیں کہ اللہ کے رسول سیدنا ابوطلحہؓ کے گھوڑے پر بغیر زین ڈالے سوار مدینہ کے باہر سے تشریف لا رہے تھے۔ لوگوں کو دیکھا کہ وہ خوف زدہ ، ڈرے ہوئے ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا:
     ’’ اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاؤ، ڈرنے کی کوئی بات نہیں، محمد()ہی اکیلے ہی مدینہ کی سرحدوں کی حفاظت کیلئے کافی ہیں، دشمن بھاگ گیا ہے، میں دور دور تک دیکھ آیا ہوں۔‘‘
     اللہ کے رسول سیدناابوطلحہؓ کے گھوڑے کی بھی تعریف فرمارہے ہیں کہ یہ تو ہوا کی طرح بڑا تیز دوڑتا ہے۔ لوگوں میں عموماً یہ تاثر تھا کہ سیدناابوطلحہؓ کا گھوڑا بہت آہستہ چلتا ہے مگر یہ بھی اللہ کے رسول کا معجزہ تھا کہ آپ اس گھوڑے پر سوار ہوئے تو یہ اتنا تیز دوڑتا ہے کہ اسے آپ ’’ بحر‘‘ کے لقب سے ملقب فرماتے ہیں۔
    بدر کی لڑائی ’’یوم الفرقان ‘‘سے معروف ہے۔ اس روز اللہ کے رسول   بھی دشمن کے مقابلہ میں عملاً لڑتے ہیں۔آپ باقاعدہ میدان میں اتر ے تھے۔ سیدنا علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ بدر کے روز ہم اللہ کے رسول کی پناہ لے رہے تھے۔ آپ دشمن کے بالکل قریب تھے۔   صحابہ کہتے ہیں کہ جب لڑائی کے شعلے بھڑک اٹھے تو اللہ کے رسول   لوگوں میں سب سے زیادہ لڑائی کرنے والے تھے۔ یوں تو مکہ مکرمہ میں اللہ کے رسول کے بہت سارے دشمن تھے مگر ان میں ابی بن خلف بد ترین دشمن تھا۔یہ وہ بد بخت تھا جس نے مکہ میں قسم کھائی تھی کہ وہ اللہ کے رسول کو( معاذ اللہ) قتل کرے گا۔ جب اللہ کے رسول کو ابی بن خلف کی یہ قسم ، یہ عہد پہنچا تو آپ نے ارشاد فرمایا:
    ’’ بلکہ ان شاء اللہ میں اسے قتل کروں گا۔‘‘
    غزوۂ احد کے اختتام پر جب اللہ کے رسول احد پہاڑ کے دامن میں قدرے محفوظ مقام پر منتقل ہوگئے تو ابی بن خلف گھوڑا دوڑاتا ہوا آپ کی طرف آتا ہے۔ صحابہ کرام ؓنے اسے دیکھا تو اسے روکنے کیلئے آگے بڑھے۔ اس بدقسمت کی موت اللہ کے رسول کے ہاتھوں آئی ہوئی تھی۔یہ بڑا متکبر اور خبیث انسان تھا۔ یہ مکہ کے ایک بڑے رئیس امیہ بن خلف کا بھائی تھا جو سیدنا بلالؓ  کا آقا تھا اور غزوہ بدر میں واصل جہنم ہواتھا۔ یہ کہہ رہاتھا : محمد() کہاں ہیں؟ اگر وہ بچ گئے تو میں نہیں بچوںگا۔
     ابی بن خلف جب اللہ کے رسول کے قریب پہنچا تو صحابہ کرامؓ درمیان میں حائل ہوگئے۔ آپ نے ارشاد فرمایا:
    ’’ اسے چھوڑ دو ،اس کا راستہ نہ روکو ،اسے میرے قریب آنے دو۔‘‘
     اُبی نے اس روز اپنے جسم کو لوہے کے لباس سے چھپا یا ہواتھا۔ یہ زرہیں پہنے ہوئے تھا۔ صرف حلق کے قریب تھوڑی سی جگہ ننگی تھی۔ جیسے ہی اللہ کا یہ دشمن اللہ کے رسول کے قریب ہوتا ہے آپ نے اپنے ایک صحابی سیدنا حارثؓ سے ان کا چھوٹا سا نیزہ لیا۔عربی زبان میں چھوٹے نیزے کو ’’ حربہ‘‘ کہتے ہیں۔ آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں میں حربہ لیا اور ابی بن خلف کی گردن کا نشانہ لے کر اس کی طرف پھینک دیا۔اُبی کو بڑی معمولی سی خراش آئی مگر یہ اللہ کے رسول   کا نشانہ تھا۔ نشانہ اپنی جگہ پر بالکل صحیح لگتا ہے۔ اُبی کو اس شدت کی تکلیف ہوئی کہ وہ3,2 مرتبہ اپنے گھوڑے سے لڑھکتا ہے۔ وہ بیل کی طرح ڈکارتا اور آوازیں نکال رہاتھا۔ بڑی تیزی سے اپنی جان بچا کر واپس بھاگا۔ اپنے لشکر میں پہنچا تو اس کی حالت قابل رحم تھی۔ یہ چیخ اور چلا رہاتھا۔اس کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اس کی گردن پر تو معمولی سی خراش آئی ہے ۔ کہنے لگے :بہادر بنو، یہ تو بڑا معمولی سا زخم ہے۔ تم اتنا چیخ کیوں رہے ہو۔ انہوں نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی کہ واللہ تم نے ایسے ہی دل چھوڑ دیا ہے ورنہ تمہیں کوئی خاص چوٹ نہیں۔ ابی بن خلف اپنے ساتھیوں سے ناراض ہورہاتھا۔ کہنے لگا : تمہیں کیا معلوم مجھے کتنی سخت تکلیف ہورہی ہے۔ بالآخر اس کے منہ سے درست اور صحیح بات نکل ہی گئی۔ بڑے غصے سے کہنے لگا : محمد () نے مکہ میں مجھ سے کہا تھا کہ وہ مجھے قتل کریںگے اس لئے اللہ کی قسم اگر وہ مجھ پر تھوک بھی دیتے تو میری جان چلی جاتی۔
    غزوہ احد کے اختتام پر ابی دوسرے لشکر کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوا۔ اس کے زخم سے خون تو بند تھا مگر اس میں شدید درد تھا۔ جب مکہ کے قریب سرف کے مقام پر پہنچا تو یہ اسی زخم کے وجہ سے واصل جہنم ہوجاتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہ اپنے ہمراہیوں سے کہتا تھا کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ..جو تکلیف مجھے ہے اگر وہ ذی المجاز کے سارے باشندوں کو ہوتی تو وہ مرجاتے۔
    اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول اللہ   اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ آپ بد ترین دشمنوں کیلئے بھی خیر کے خوگر تھے مگر ابی بن خلف وہ بدبخت اور بد خلق شخص تھا جو آپ کو مکہ میں دیکھتا تو کہتا تھا: محمد (!)میرے پاس ’’عود‘‘ نامی ایک گھو ڑا ہے ،میں اس کو روزانہ 3 صاع (یعنی8,7 کیلو) دانہ کھلاتا ہوں، اس پر بیٹھ کر تمہیںقتل کروں گا۔اس کے جواب میں اللہ کے رسول   فرماتے تھے:
    ’’ ان شاء اللہ میں تمہیں قتل کروں گا۔ ‘‘    حدیث پاک میں آتا ہے کہ اس شخص پر اللہ تعالیٰ کا غضب سب سے شدید ہوتا ہے جس کو اللہ کا رسول اپنے ہاتھ سے اللہ کی راہ میں قتل کرے۔ اللہ کے رسول ا پنی امت میں سے کسی اور کو بد بخت نہیں بناناچاہتے تھے اس لئے آپ نے پوری زندگی میں سوائے ابی بن خلف کے کسی شخص کو قتل نہیں کیا۔
    قارئین کرام! ہم اللہ کے رسول کے بہادر اور شجاع ہونے کی بات کررہے تھے۔ بنوہوازن عرب کا مانا ہوا بہادر قبیلہ تھا۔ یہ لوگ تیر اندازی میں ماہر تھے۔ فتح مکہ کے بعد بنو ہوازن اور بنو ثقیف ملکر مسلمانوں کے خلاف حنین کی وادی میں آتے ہیں۔ حنین کی وادی مکہ مکرمہ سے زیادہ دور نہیں ۔مکہ سے جنوب کی طرف سفر کریں تو جلد ہی آپ حنین کی جگہ پہنچ جائیں گے۔سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ تم حنین کے روز بھاگ گئے تھے۔ دراصل دشمن نے اتنی اچھی صف بندی کی ہوئی تھی کہ اس سے پہلے کبھی نہیں کی تھی۔ جب دشمن سے لڑائی شروع ہوئی تو انہوں نے اس زور سے تیر اندازی کی کہ مسلمانوں میں بھگڈر مچ جاتی ہے اور پھر مسلمانوں کی یہ حالت قرآن کریم کے الفاظ میں :ضاقت علیکم الأرض بما رحبت کہ’’ زمین اپنی تمام تر وسعت کے باوجود تنگ ہوگئی۔‘‘ لیکن اس موقع پر اللہ کے رسول کی بہادری اور جواں مردی کو ملاحظہ کیجئے کہ آپ  اپنی جگہ استقلال واستقامت کا پہاڑ بن کر کھڑے ہیں۔ آپ سفید رنگ کے خچر پر سوار ہیں۔ آپکے چچازاد بھائی سیدناابوسفیانؓ بن حارث بن عبدالمطلب بھاگ کر آگے بڑھتے اور خچر کی لگام پکڑ لیتے ہیں۔ ادھر چچا سیدنا عباسؓ بن عبدالمطلب نے رکاب تھام لی ہے کہ کہیں خچر تیزی سے آگے نہ بڑھ جائے۔ اس بھگڈر میں بھی اللہ کے رسول کی سواری کا رخ کفار کی طرف ہے ۔ آپ پیچھے ہٹنے کی بجائے آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اپنے خچر کو ایڑ لگارہے ہیں۔ ہاتھ میں تلوار ہے اور اونچی آواز سے رجزیہ کلمات کہہ رہے ہیں:
    { ان النبی لا کذب، انا ابن عبدالمطلب}۔
    ’’ میں نبی ہوں اور اس میں کوئی جھوٹ نہیں ،میں عبدالمطلب کا بیٹاہوں۔‘‘قارئین کرام!اللہ کے رسول کے ساتھ اس وقت جو لوگ ثابت قدم رہے اُن میں سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق، سیدنا عباس بن عبدالمطلب ، سیدنا فضل بن عباس، سیدنا اسامہ بن زید شامل تھے۔ ایک نہایت بہادر خاتون ام سلیم بھی ان بہادروں میں شامل تھیں جن کے قدم ثابت رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول سے عرض کی تھی کہ ان’’ طلقاء‘‘ کو قتل کردیجئے۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ سیدہ ام سلیمؓ خادم رسولؐ سیدنا انس بن مالک ؓکی والدہ اور سیدنا ابوطلحہؓ کی زوجہ تھیں۔ یہ نہایت بہادر خاتون تھیں۔انہوں نے اپنے کمر میں خنجر باندھ رکھا تھا۔ جب اللہ کے رسول نے خنجر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا :    ’’ خالہ! اس خنجر کا کیا کرو گی ۔‘‘    تو انہوں نے کہا کہ اگر کوئی کافر میرے نزدیک آیا تو اس کا پیٹ پھاڑ دوں گی۔    اللہ کے رسول کی بہادری اور ثابت قدمی سے بھاگنے والوں کے قدم رک جاتے ہیں۔ آپ اپنی فوج میں شجاعت اور بہادری اور ان کا مورال اس طرح بلند کرتے ہیں کہ جنگ پورے زوروں پر ہے، اللہ کے رسول نے نظر اٹھاکر میدان جنگ کی طرف دیکھا تو ارشاد فرمایا: ’’ اب چولہا گرم ہوگیا ہے۔‘‘ آپ  مٹی کی ایک مٹھی اٹھا کر دشمن کی طرف پھینکتے ہیں ،زبان اقدسسے نکلا:    {شاہت الوجوہ}۔
    ’’ یہ چہرے بگڑ جائیں۔‘‘
     یہ مٹی اس طرح پھیل گئی کہ دشمن کے ہر شخص کی آنکھی میں پر جاتی ہے۔ وہ آنکھیں ملتے رہ گئے اور فرار پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
    اس سے قبل اللہ کے رسول نے اپنے چچا سردار عباسؓ بن عبدالمطلب سے فرمایا تھا کہ بیعت رضوان والوں کو آواز دو،انصار کو آواز دو۔ سیدنا عباس کی آواز اتنی بلند تھی کہ پوری وادی میں سنائی دیتی تھی۔ انہوںنے بلند آواز سے پکارا :
    { یا معشر الانصار، یا معشر اصحاب السمرۃ}۔
    ’’اے جماعت انصار، ارے بیعت رضوان میں شامل ہونے والو! ادھر آؤ یہ اللہ کے رسول ہیں۔ ‘‘
    مجاہدین اللہ کے رسول کے سچے محبان کے کانوں میں جیسے ہی آواز پہنچتی ہے فوراً بھاگتے ہوئے آتے ہیں۔
    قارئین کرام!کیا آپ جانتے ہیں کہ ان کے پلٹ کر آنے کا انداز کیسا تھا؟ سیرت نگاروں کے مطابق بالکل ایسے جیسے گائے اپنے بچوں کیلئے بھاگتے ہوئے پلٹ آتی ہے۔ تھوڑی دیر میں جنگ کا پانسہ پلٹ جاتا ہے۔ اللہ کے رسول کی غیر معمولی شجاعت، بہادری اور ثبات قدم سے میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہتا ہے۔
    آپ کی شجاعت اور بہادری کے کتنے ہی واقعات ہیں مگر میں اپنے قارئین کی توجہ ایک واقعہ کی طرف دلا کر آپ کے دیگر صفات کی طرف بڑھتے ہیں۔
    غزوہ احد کے اختتام پر قریش بغیر کسی مسلمان کو گرفتار کیے، یا ما ل غنیمت حاصل کیے مکہ روانہ ہوجاتے ہیں۔اس زمانے میں دستور تھا کہ فاتح فوج 2یا 3 دن وہاں قیام کرتی تھی مگر کفار نے فوراً واپسی کی راہ اختیار کی۔ یہاں دیکھئے اللہ کے رسول کی شجاعت اور جنگی پلاننگ کہ باوجودمسلمان زخموں سے چور، غم سے نڈھال تھے۔ خود اللہ کے رسول   زخمی تھے مگر آپ نے مدینہ میں ہنگامی حالت میں رات گزاری، معرکۂ احد کے دوسرے دن اللہ کے رسول کی طرف سے اعلان ہورہا ہے کہ جو لوگ جنگ میں شریک ہوئے تھے وہ دشمن کا پیچھا کرنے کیلئے ہمارے ساتھ چلیں۔ اللہ کے رسول   خود بھی نکلتے ہیں اور صحابہ کرام بھی بلا تردد سرِ اطاعت خم کردیتے ہیں۔اللہ کے رسول مدینہ سے8 میل دور حمراء الاسد پہنچ کر خیمہ زن ہوتے ہیں۔ یہاں پر جو بات قابل غور ہے وہ یہ کہ ابوسفیان اور اس کے ساتھیوںنے مدینہ سے 36 میل دور روحا کے مقام پر آرام کیلئے پراؤ ڈالا توابو سفیان نے ملامت کی کہ تم جنگ ادھوری چھوڑ آئے ہو، تم لوگوں نے کچھ نہیں کیا۔ مسلمانوں کی شوکت وقوت کو توڑ نہیں سکے۔ ان کا پروگرام بھی بناکہ دوبارہ مدینہ پر حملہ کیا جائے مگر ایک تو معبد خزاعی نے ان کی حوصلہ شکنی کی اور دوسرا جب انہیں یہ اطلاعات ملیں کہ مسلمان تعاقب میں نکلے ہوئے ہیں تو دشمن کے اعصاب جواب دے گئے اس لئے انہوں نے حملہ نہ کیا۔

مزید پڑھیں:- - - - -آپ کے دنیا میں آخری لمحات
 

شیئر: