Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الوافدون (تارکین)

سمیر عطا اللہ ۔ الشرق الاوسط
کویت کا بہت پرانا مسئلہ الوافدون (تارکین) ہیں۔ ہمیشہ وہاں غیر ملکی کثیر تعداد میں آتے رہے ۔ کویتی بلا انقطاع انکی بابت خدشات کا اظہار کرتے رہے۔انہیں یہ خوف دامن گیر رہا کہ کہیں تارکین کی تعداد انکی تعداد سے اتنی زیادہ نہ ہوجائے کہ قومی سلامتی اور آبادی کا تناسب بگڑ جائے۔ عرب ،کویتیوں کے اِن خدشات پر ان سے چٹکیاں لیتے رہے۔ کہتے رہے کہ کویتی بھی کیسے عرب ہیں کہ اپنے بھائیوں کے استقبال سے خوفزدہ ہوتے رہتے ہیں۔
کویت کی ایک خاتون رکن پارلیمنٹ نے اس حوالے سے ایک مطالبہ کرکے پورے ملک میں ہنگامہ برپا کردیا۔ رکن پارلیمنٹ کا کہناہے کہ ہر غیر ملکی سے کویتی فٹ پاتھ کے استعمال پر 100فلس ٹیکس وصول کیا جائے۔یہ مطالبہ سن کر کویت میں مقیم مصری کمیونٹی چلا اٹھی۔ کویتی شہری ، مصریوں کے دفاع میں کھڑے ہوگئے۔ کہنے لگے کہ اپنے ایسے بھائیوں سے جنہوں نے کویت کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیا ہے فٹ پاتھ استعمال کرنے کا ٹیکس کیونکر لیا جاسکتا ہے؟ 
دوسری سچائی یہ ہے کہ کویت میں مصری کارکنان کی تعداد 750ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ کویت میں تارکین کی مجموعی تعداد مقامی شہریوں کی تعداد سے 3گنازیادہ ہے۔ کویتی رکن پارلیمنٹ کے مطالبے سے قطع نظر کویت آزادی کے پہلے روز سے عرب تارکین کی بڑی تعداد کی میزبانی کررہا ہے۔ اب کویت نے 10سالہ ماسٹر پلان تیار کیا ہے جس کے بموجب کویتیوں کے مقابلے میں غیر ملکیوں کی تعداد صرف 50فیصد تک ہی زیادہ رہ سکے گی۔
شدت پسند رکن پارلیمنٹ کو خوش کرنا محال ہے۔ فٹ پاتھ کے استعمال پر ٹیکس کی وصولی ناممکن سی ہے۔ حکومت کویت تیل کی تاریخ جتنے پرانے مسئلے کو حل کرنے کیلئے توازن پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔تیسرے عشرے میں تیل برآمد ہوتے ہی بعض شخصیات نے تیل آمدنی میں شراکت کا مطالبہ کردیاتھا۔ بعض لوگوں نے تو تیل کے کنوﺅں پر قبضے تک کی باتیں کی تھیں۔ ان میں معروف سفارتکار نوری السعید اور جنگوں کے بابا آدم صدام حسین کے نام قابل ذکر ہیں۔
کویت نے اپنے برادر عربوں کی جانب سے ”عربوں کا خزانہ عربو ںکیلئے “ جیسا مطالبہ منظر عام پر آنے سے قبل ہی امدادی ادارے قائم کردیئے تھے۔ کویت نے العربی فنڈ قائم کیا تھا۔ کویت نے اسے کویتی فنڈ کا نام نہیں دیا تھا۔ کویت واحد عرب ملک ہے جس نے عرب مسائل کو اپنایا۔ قومیت پرستوں کےلئے اپنی پارلیمنٹ کے دروازے کھولے۔ اپنے یہاں یاسر عرفات کے زیر قیادت ”الفتح“ تحریک کی میزبانی کی۔ یاسر عرفات ،کویت میں سول انجینیئر کے طورپر کام کررہے تھے۔ محمود عباس واحد شخص ہیں جو قطر میں تھے۔ انکے سوا تنظیم آزادی فلسطین کے تمام ارکان کویت ہی میں قیام پذیر تھے۔ خالد مشعل بھی کویت ہی سے نکلے جو حماس تحریک کے موثر رہنما کے طور پر مشہور ہوئے۔ عوامی محاذ کے بعض قائدین بھی کویت ہی کے ساختہ پرداختہ ہیں۔
حکومت کویت نے ایک طرف عرب تارکین کیلئے اعلیٰ سرکاری عہدوں کے دروازے کھولے،دوسری جانب کویتی میڈیا نے اپنے اخبارات اور صحافتی اداروں میں فلسطینیوں کو غیر معمولی چھوٹ دی۔ پھر جب کویتی پارلیمنٹ قائم ہوئی تو دنیا بھر کو ایسا لگا کہ گویا وہ فلسطینی پارلیمنٹ بن گئی ہے۔ فلسطینیوں نے کویتی صحافت کے قیام میں اہم کردارادا کیا۔ کویتی صحافت اب بھی ترقی کررہی ہے۔کویتی صحافت کی خبروں اور کالموں پر آج بھی فلسطین او راسکے مسائل چھائے ہوئے ہیں۔
عبداللہ بشارہ خلیجی قومیت اور خلیجی اتحاد کے علمبرداروں میں نمایاں ترین شخصیات کے مالک مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ مطالبہ کیا کہ ایسی پالیسی نہ اپنائی جائے جس سے ریاستی نظام سقوط کا شکار ہوجائے۔ انہوں نے جی سی سی کے پہلے سیکریٹری جنرل اور 10 برس تک اقوام متحدہ میں کویت کے سفیر کی حیثیت سے اپنے اس نظریئے کا دفاع کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ کویت نے ملکی اتحاد کو بچانے میں غیر معمولی کرداراداکیا۔تحفظ پسند افکار نے کویت کو لڑائی دنگوں سے دور رکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ عرب گئے اور واپس آئے۔ کویت اپنی جگہ پر قائم ہے۔ کویت کے ناقدین نے اس سے معذرت کی۔ کویت کے خلاف زبان درازی کرنے والوں نے ندامت کا اظہار کیا۔ کویت پر عرب بحرانوں سے کنارہ کشی کا الزام لگانے والے اب ببانگ دہل یہ اعتراف کررہے ہیں کہ کویت ہمارے مسائل کا دفاع کرنے والوں میں قافلہ سلار تھا اور اب بھی ہے اور آئندہ بھی رہیگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: