Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گھر میں” ننھا مہمان“ ہی والدین کی روٹین بناتا ہے، عریبہ نعمان

زینت شکیل۔جدہ
    الحی¿ القیوم،ہمیشہ قائم رہنے والا، تمام کائنات کو قائم رکھنے والا، اس کا نظام چلانے والا اوردعائیں قبول کرنے والا ہے۔ انسان کو چاہئے کہ اپنی ہر ضرورت اورحاجت اپنے رب کریم ہی سے مانگے، اے ہمارے رب کریم تو ہمیں اس دنیا میں بھی اچھی نعمتیں عطا فرما اور آخرت میں بھی اچھی نعمتیں عطا فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لے۔ ہر نماز میں ہم یہ دعا مانگتے ہیں اور اس پر یقین بھی رکھتے ہیں۔
زندگی کے مختلف ادوار سے ہر کوئی گزرتا ہے اور جب وہ اس دور کو گزار لیتا ہے تو دوسروں کے لئے اپنے تجربات کی بناءپر چاہتا ہے کہ اس کی نسل نو اپنا وقت ضائع نہ کرے لیکن ہر فرد میں تجسس کا مادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ چاہتا ہے کہ دنیا میں الگ طرح کے تجربات سے گزرے۔پہلے زمانے میں لوگ ایک مشترکہ خاندانی نظام میں رہتے تھے کئی صدیا ں ایسے ہی گزریں۔ کئی ممالک نے یہ کام کیا کہ انفرادی طور پر اپنی زندگی جینے کی راہ نکال لی اوریہ اس طور پر ممکن ہو سکا کہ اپنی آبائی بستی سے دوسری جگہ کسی نہ کسی وجہ سے جابسے اور چند دہائیوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ نئی نسل کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ اپنی زندگی جیو اور اپنا ہر فیصلہ خود کرو۔ یہ آزادی اتنی بھائی کہ اور لوگ بھی اس بھیڑ چال میں شامل ہوگئے لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ لوگ اب خود یہ سچ مان چکے ہیں کہ جس طرح ایک قوم متحد ہوتی ہے تو اس کو کوئی آسانی سے شکست نہیں دے سکتا ہے بالکل اسی طرح ایک مشترکہ خاندان یکجہتی کی علامت ہوتا ہے۔ ایسا مضبوط درخت جس کی گھنی چھاﺅں تلے پورا خاندان اپنے بزرگوں کے ساے میںاطمینان و امن میں زندگی گزارتا ہے ۔”ہوا کے دوش پر“اسی موضوع پر ہماری گفتگو محترم نعمان ندیم اور انکی اہلیہ محترمہ عریبہ نعمان سے ہوئی۔
عریبہ نعمان نے اپنے اسکول میں سائنس کے مضامین کا انتخاب کیااور ٹیچر بننے کی اپنی خواہش پوری کرنے کے لئے بچپن ہی سے یہ شوق پورا کرنے لگیں ۔یہ سب کچھ اتنی آسانی سے اس لئے ممکن ہوسکا کیونکہ کئی منزلہ گھر میں مشترکہ خاندان رہتا تھا اور آج بھی سب وہیں اسی سسٹم کے تحت رہتے ہیں ۔عریبہ صاحبہ نے بتایا کہ انکی پھوپھی کا گھر بھی قریب ہونے کی وجہ سے تمام کزنز کا آپس میں ملنا جلنا رہتا تھا لیکن جب وہ لوگ پاکستان گرمی کی چھٹیوں میں آتے تھے، سب خاندان مل کر پروگرام بناتے اور پھوپھی اماں سے فرمائش کی جاتی کہ 
 وہ مٹن کڑھائی ضرور بنائیں۔ ویسے تو وہ ہر چیز مزیدار بناتی ہیں لیکن ان کی اسپیشلیٹی مٹن کڑھائی ہے اور تمام خاندان میں ان سے فرمائش کرتا ہے۔ جب کہیں آﺅٹنگ کا پروگرام بنتا ہے۔ ویسے سردی کے دنوں میں انکا محنت سے بنایاہوا لال گاجروں کا گجریلا ہر ایک کو بے حد پسند ہے۔
اسے بھی پڑھئے:میاں بیوی کے رشتے میں اناشامل ہو تو زنگ لگ جاتا ہے ، غوثیہ جاسم
عریبہ نعمان نے بتایا کہ میتھس اور فزکس اکثر طلبا و طالبات کو مشکل مضامین معلوم ہوتے ہیں لیکن میں نے بہت شوق سے یہ مضامین چنے اورخیال یہی تھا کہ ان مضامین کو پڑھانا بھی ہے اس لئے سائنس میں بیچلرز کی ڈگری لینے کے بعد بی ایڈ کا امتحان بھی پاس کیا لیکن صرف گھر پر بہن بھائی کو یا پھر کوئی ٹیوشن پڑھانے کا ہی موقع ملا۔
ہر والدین کی طرح عریبہ کے والدین کو بھی انکی شادی کی فکر ہوئی اور اسی سلسلے میں ایک گھرانے نے خاص مہمان بن کر آنے کے بعد ان کے گھرانے کو اپنے گھر آنے کی خاص دعوت دی۔ چند دنوں کے بعد عریبہ صاحبہ کی والدہ شبانہ صاحبہ اور والد محترم محمد زاہدنے فیصلہ کیا کہ لوگ تو مناسب لگے ہیں چنانچہ خود جاکر ملاقات کرنی چاہئے لیکن اس سلسلے میں پہلے صاحب زادے ارسلان اپنی والدہ کے ہمراہ جائیں پھر جب ہر چیز مناسب معلوم ہو تو والد صاحب بھی ملاقات کریں گے لیکن قدرت کا فیصلہ کچھ اور ہی تھا اسی لئے عریبہ کی پھوپھی جان جو سعودی عرب سے پاکستان پہنچی تھیں ،اپنے صاحب زادے کا رشتہ بھتیجی کے لئے لائیں اور پھر اپنے بھائی سے فرمائش کی کہ چونکہ ان کی بیٹی کی شادی تین دن بعد ہے تو اس دن ہی نکاح ہو جائے تاکہ دستاویزات میں بھی آسانی ہو اور تمام رشتہ دار جو مختلف ممالک سے آئے ہوئے ہیں انہیں بھی سہولت ہو جائے۔ دوسرے دن اہتمام سے تایا ابا،چچا جان کے گھروالے باقاعدہ طور پر رشتہ لے کر آئے اور بھائی بہن کے بچوں میں ہونے والے اس نئے رشتے کی بنیاد پرگھرانے کے اور مضبوط بن جانے پر ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔
نعمان ندیم کا کہنا ہے کہ تعلیم اگر ٹف ہو تو فرصت بہت کم ملتی ہے اور ایسا بھی کم کم ہی ممکن ہوتا ہے کہ دوستوںسے ملنے جلنے یا نیٹ کے لئے وقت زیادہ نکالا جاسکے ۔یہی وجہ ہے کہ بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کے بعد ابھی جاب شروع ہوئی تھی کہ ہماری والدہ نے کہا کہ بس جب شادی کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہوجائے تودیر نہیں کرنی چاہئے جبکہ ایک بہن کی شادی ہو چکی تھی اور دوسری بہن کی ایک ہفتے بعد مایوں کی تقریب تھی ۔اسی وقت یہ فیصلہ ہوا اور تمام خاندان والوں کو اس اچانک خبر سے خوشی بھی ہوئی اور لوگوں نے اس خوشی کا اظہار بھی کیا۔ پھر مایوں والے دن پہلے عریبہ اور نعمان کے نکاح کا اہتمام ہوا پھر شام میں مایوں کی تقریب میں رسم سے پہلے چھوٹی بہن اریج کا نکاح طے شدہ پروگرام کے تحت منعقد ہوا۔ خاندان کے لوگوں نے اس اقدام کو احسن قرا ر دیا کہ اپنے خاندان سے باہر رشتے کریں تو خاندان وسیع ہوتا ہے لیکن اپنے لوگوں میں بہت ساری آسانیاں مل جاتی ہیں۔عریبہ کی چھوٹی بہنیں ابیہا،عبیر ، تمکین اور تمام کزنز نے خوب رونق لگائی۔ سب ہی خوش تھے لیکن عریبہ صاحبہ نے بتایا کہ بچپن سے جیسے بھائی کے نام سے پکارنے کی عادت تھی توشادی کے بعدبھی وہی لفظ کئی دفعہ منہ سے نکل گیا۔یہ سن کر میری کزن نے مجھے سمجھایا کہ اب تمہارا رشتہ تبدیل ہو چکا ہے، اس بات کا خاص خیال رکھا کرو۔
محترمہ عریبہ نے بتایا کہ انہوں نے شادی کا جوڑا اپنی پسند سے بنوایا چونکہ نکاح پہلے ہو چکا تھا تو پھوپھی امی مجھے شاپنگ پر ساتھ ہی لے کر جاتی تھیں۔ انہوں نے کئی جوڑے بنوائے ۔کوئی جوڑا مجھے پسند آگیا اورکسی سوٹ کو پھوپھی امی نے کہا کہ یہ جوڑا اچھا لگ رہا ہے۔ ایک جوڑاکسی بھی رنگ میں لے لو۔ اس طرح تمام شاپنگ مکمل ہوئی۔ شادی کا شرارہ سرخ اور آف وائٹ تیار کروایا گیا تھاجبکہ ولیمے کا جوڑا پیچ کلر کا تھا۔
عریبہ صاحبہ نے کہا کہ مجھے اپنی پھوپھی امی کی بروقت اوردرست فیصلہ کرنے کی صلاحیت بہت اچھی لگتی ہے اور یہ خوبی بھی ان میں ہے کئی مرتبہ آپ سوچتے ہیںکہ فلاں کام ہم کریں یا نہ کریں اور وقت گزرنے کے بعد خیال آتا ہے کہ فلاں شوق پورا نہیں ہوا، کیا حرج تھا اگر ہم بھی اس موقع پر شامل ہوجاتے۔ یہی سورتحال ہوئی جب ہمارے گھر پر تو سب نے کہہ دیا کہ عریبہ دولہا کے مایوں میں کیسے جاسکتی 
 ہے لیکن جب پھوپھی امی کا فون آیا کہ عریبہ کو لے کر آنا ہے، نکاح ہو چکا ہے ، اسے بھی ہر تقریب میں شامل ہونا چاہئے تو دونوں گھروں 
 کی مایوں، مہندی میں ہماری کزنز نے خوب گانے گائے۔ تقریباً20 دن ڈھولکی بجائی جاتی رہی۔ سب قریب قریب ہی رہتے ہیں تو بس سب بہنیں جمع ہوجاتیں اور دو ٹیمیں بنا کر گانوں کا مقابلہ منعقد ہوتا۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کوئی کہتی کہ کل میں نے تمہاری طرف سے گانے گائے تھے توآج میں نے تمہاری سسرال کی طرف سے گانے گانے ہیں۔ یہ سلسلہ یاد گار ہوتا ہے۔ رسمیں بھی سب نے خوب انجوائے کیں۔
محترمہ عریبہ نے سیاحت کے سلسلے میں اپنی رائے دی کہ ہمارا ملک اتنا خوبصورت ہے ،اسے مزید سہولتوں سے آراستہ کرنا چاہئے۔ شمالی علاقہ جات کی خوبصورتی توایسی ہے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی اس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔کوہساروں کی دلہن ”مری“ پھر سحر انگیز شہراسلام آباد ، وہاں کی فیصل مسجد اس کے علاوہ سیاحتی مقام دامن کوہ، شکر پڑیاں اور دیگر مقامات ، سب ہی خوبصورتی کامرقع ہیں۔ انہیں دیکھ کر یہ خیال بھی آتا ہے کہ پہلے زمانے کے لوگ زمین اور پہاڑوںمیں گھر کس طرح بناتے ہوںگے جبکہ اس زمانے میں سائنس و ٹیکنالوجی بھی متعارف نہیںہوئی تھی۔ یہ بھی درحقیقت عجائبات میں ہی لگتا ہے کہ یہ سب گھر کیسے بناتے ہونگے۔
آج ہم سیاحتی مقامات کی خوبصورتی سے مسحور ہوتے ہیں ۔پہاڑ کی چوٹی پر موجود ریسٹورنٹ سے شہر کا منظر انتہائی خوبصورت لگتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی جنت ارضی پر پہنچ گئے ہیں۔
محترمہ عریبہ نے اپنی مصروفیت کے بارے میں بتایا کہ چھوٹی سی گڑیا نے سارا دن کیلئے ”مصروفیت کا نیا نظام“ ہمارے لئے ترتیب دے دیا ہے کہنے کو تو گھر میں ایک چھوٹا سا بچہ” ننھا مہمان“ آتا ہے لیکن والدین کے لئے وہی دن اور رات کی روٹین بناتا ہے۔ یہ ایک اچھی مصروفیت بھی ہے اور مالک حقیقی کی عطا فرمائی ہوئی نعمت بھی۔ اس پر مالک کاجتنا بھی شکر ادا کریں، کم ہے۔ یہاں رہنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ بے انتہاءشکر کا مقام ہے کہ جب بھی بلاوا آتا ہے، ہم نہایت آسانی سے عمرہ کی ادائیگی کے لئے روانہ ہو جاتے ہیں۔میرے شوہر نعمان اپنے والدین کے فرماں بردار بیٹے ہیں اور اپنے بھائی بہنوں کا بے حد خیال رکھتے ہیں۔ رشتہ داروں کی خیریت دریافت کرتے ہیں، سیاحت کے شوقین ہیں۔انہیں کھیلوں میں کرکٹ پسند ہے لیکن اب ہر دن ،صبح و شام کے میچ نے کرکٹ میں ان کی دلچسپی کم کر دی ہے۔ 
نعمان ندیم نے کہا کہ میری اہلیہ عریبہ بے حد سادہ مزاج ہیں۔ وہ ہمارے ہاںکے مشترکہ خاندانی نظام سے بے حد خوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح انسان ایک اکائی کی صورت میں رہتا ہے ۔سب کو ایک دوسرے کی خیریت پوچھنے کے لئے دور دراز کا سفر نہیں کرنا پڑتا اور ہر خوشی و غم میں ساتھ دیتے ہیں۔ 
نعمان کے خیال میں پہلے جب وکٹ کیپر کی آواز مائیک پر آتی تھی کوئی ایک تعریفی لفظ جو وہ اپنی ٹیم کے باﺅلر کے لئے کہتا تھا لیکن 
 اب تو یہ حال ہے کہ دوسری ٹیم ہماری زبان کیا جانے گی، پوری کلاس لی جاتی ہے جیسا کہ آج ہوا۔ کہا جا رہا تھا تم اپنی جگہ پر کھڑے رہے تو بال تو تمہارے ہاتھوں تک آئے گی نہیں، اس کے لئے تمہیں اپنی جگہ سے آگے آنا پڑے گا تب ہی کیچ مل سکے گا ۔ یعنی حدیہ ہے کوچز کو اتنی بھاری بھرکم تنخواہ پر رکھا جاتا ہے پھر بھی فیلڈ میں کوچنگ کی ضرورت پڑجاتی ہے ۔
ادب پر بات ہوئی تو پتا چلا کہ دونوں میاں بیوی علامہ اقبال کو بحیثیت شاعر بے حد پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے علامہ اقبال کے چند اشعار پیش کئے:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
٭٭٭
بتا کیا تری زندگی کا ہے راز
ہزاروں برس سے ہے تو خاک باز
٭٭٭
اسی خاک میں دی گئی تیری آگ
سحر کی اذاں ہوگئی اب تو جاگ 
٭٭٭
زمیں میں ہے گو خاکیوں کی برات
نہیں اس اندھیرے میں آب حیات 
٭٭٭
 زمانے میں جھوٹا ہے اس کا نگیں
جو اپنی خودی کو پرکھتا نہیں
٭٭٭
 بتان شعوب و قبائل کو توڑ
رسوم کہن کے سلاسل کو توڑ
٭٭٭
بخاک بدن دانہ دل فشاں
 کہ ایں دانہ دارد ز حاصل نشاں
 
 

شیئر: