کیا روپیہ دوبارہ مضبوط ہو جائے گا؟
کراچی (صلاح الدین حیدر) حکومتی دعوے اپنی جگہ، وزیر اعظم اور وزیر خزانہ24 گھنٹے عوام کو تسلی دینے میں کوشاں لیکن دلائل یا تو غیر موثر یا پھر سارے ہی مسترد۔ روپے کی قدر کم ہونے پر گھبرایئے نہیں۔ کچھ دن میں سب ٹھیک ہوجائے گا، عمران خان کا بیان اور اس بات پر مزید زوریہ کہ روپیہ جلد مضبوط ہوجائے گا۔ سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکاونٹ خسارے کا ہے۔ منی لانڈرنگ، ہنڈی اور حوالہ روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ دعوے اب تک تو غیر تسلی بخش ثابت ہوئے۔ پھر اسد عمر کی باتوں پر ذرا صبر کرلیں۔ معیشت صحیح سمت میں چل پڑی ہے۔ امید ہے کہ حکومتی کوشش باآور ہوں گی لیکن اس کا کیا جواب ہے کہ بزنس اور صنعت و حرفت میں مشغول طبقہ مسائل کا رونا رونے پر مجبور ہے۔ اس پر د ہرا دباو ہے۔ اسٹیٹ بینک کا شرح سود 75 فیصد اضافہ کر کے 10 فیصد تک پہنچا دینا معاشی طور پر زخم پر مرہم رکھنے کا پرانا نسخہ ہے۔ مقصد کرنسی کے بہاو کو روکنا ہے۔ بات اپنی جگہ صحیح ہے، مہنگائی کنٹرول کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے لیکن انڈسٹری کو اگر قرضے حاصل کرنے میں دشواری پیش آئے یا روپیہ 135 سے بھی اوپر پہنچا تو بے چارا مصنوعات کو دنیا کے میدان میں کیسے فروخت کرے گا۔ بین الاقوامی سطح پر چین، ہندوستان، ترکی اور کئی ایک دوسرے ممالک اب پاکستانی برآمدات کو بہت پیچھے چھوڑ گئے ۔ ہندوستان میں بجلی سستی ہے۔ قرضوں کی شرائط بھی کہیں زیادہ آسان ہیں۔ اب اگر وزیر خزانہ یہ کہتے ہیں کہ روپے کی قدر میں گراوٹ سے کپاس کی ایکسپورٹ بڑھ جائے گی تو تجربات سے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ لو کل کرنسی کی قیمت کم ہونے سے برآمدات تھوڑے عرصے کے لئے تو فائدہ اٹھا لیتی ہے ۔ لمبے عرصے کےلئے سود ثابت نہیں ہوتا۔ کراچی چیمبر آف کامرس اور انڈسٹری میں صدر جنید اسماعیل نے اسی کو دہرایا کہ لوکل کرنسی کی قیمت کم ہونے سے معیشت پر ہمیشہ ہی برا اثر پڑا ہے۔ ایسا فیصلہ منفی اثرات دکھاتا ہے۔ ترکی کی مثال لے لیں۔ آج سے 10 سال پہلے تک لیرا ایک ڈالر میں جھولی بھر کے ادا کیا جاتا تھا ۔ اگر کسی ملک کو اچھی اور دانشمند قیادت نصیب ہوجائے تو پھر شب و روز کی محنت معیشت کو نا صرف سنبھالا دیتی ہے بلکہ اسے بلندیوں تک پہنچا دیتی ہے۔ آج ایک ڈالر کے مقابلے میں ترکی لیرا کی قیمت دنیا کی دوسری کرنسیوں یو اے ای درہم، سعودی ریال، ملائیشین رینگٹ کے تقریباً برابر ہوگئی ہے۔ ترکی کی معیشت اور اب عام آدمی کی حالت سے بہت بہتر ہو چکی ہے۔ترکی آج دنیا میں اپنی مصنوعات اور ترکش ایئر لائن پر بجا طور پر فخر کرسکتا ہے۔ الفاظ کے گورکھ دھندا سے کام نہیں چلے گا۔ ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔کاروباری طبقے کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک کی شرح سود میں اضافہ ان کے لئے مشکلات پیدا کررہا ہے۔ سائٹ ایسوسی ایشن کے صدر سلیم پاریکھ نے بھی اسی قسم کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ایک طرح سے شکایت بھی کی کہ بغیر سوچے سمجھے فیصلے کرنے سے ملک کو بہت نقصان ہوگا۔