تجارتی کشمکش کے خاتمے کیلئے اقتصادی سکون
سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ”الاقتصادیہ“ کا اداریہ نذر قارئین ہے
ایسا لگتا ہے کہ جی 20کی بدولت چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی محاذ آرائی پر کچھ خوشگوار اثر پڑا ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ دونوں ملکوں کے عہدیدار کسٹم ڈیوٹی اور جوابی کارروائی کے معرکوں سے بالاہوکر تجارتی اختلافات حل کی فکر کررہے ہیں۔ عالمی اقتصادی ادارے تجارتی جھگڑوں کو عالمی اقتصاد کیلئے بدشگونی قرار دے رہے ہیں۔ تجارتی جھگڑوں کی آنچ تاریخی اتحادیوں امریکہ اور یورپی ممالک تک بھی پہنچنے لگی ہے۔ یہ درست ہے کہ جی 20 سے جتنی امیدیں وابستہ کی گئی تھیں اتنی پوری نہیں ہوئیں البتہ اس سے مسائل کے حل کیلئے مکالمے کا دروازہ کھلا ہوا ہے جو اختلافات کے تصفیے کا موثر وسیلہ ہے۔
بین الاقوامی تجارتی اختلافات میں امریکہ اور چین کے تجارتی تنازعات کا حجم سب سے زیادہ بڑا ہے۔ دونوں نے کارروائی اور جوابی کارروائی کرکے معاملہ تجارتی جنگ کی سطح تک پہنچا دیا۔ عالمی منظر نامہ بھی اس سے متاثر ہوا ہے۔ گزشتہ 2برسوں کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی رسہ کشی گھناﺅنی ہوتی چلی گئی۔
بالاخر امریکی حکومت چین پر دباﺅ ڈالنے میں کامیاب ہوگئی۔ امریکہ نے دیگر بڑے ممالک کو بھی چین کیخلاف ناقدین کی صف میں شامل کرلیا۔ امریکہ نے جی 20میں شرکت کے موقع پر کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ تاریخی تجارتی معاہدہ کرلیا۔ چین اور امریکہ کے درمیان بھی تجارتی جنگ ٹھنڈی پڑ گئی۔ اس سے دیگر تنازعات کے حل کے دروازے بھی کھل گئے۔
دنیا اب کسی بھی بڑی تجارتی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ دنیا ابھی بڑے عالمی اقتصادی بحران کے اثرات سے نکلی ہے۔ اب عالمی اقتصاد کو شرح نمو کی ضرورت ہے۔ آئندہ برسوں میں شرح نمومعمولی ہی رہیگی۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ امریکہ بھی پرسکون حل کو ترجیح دینے لگا ہے۔ جی 20 میں شامل ممالک بھی اسی رجحان کے حق میں امریکہ کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭