Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ممنوعہ دینی یا ثقافتی مصنوعات کا پرچار

محمد حتحوط ۔ مکہ 
2001ءکے دوران شہرہ آفاق ریستوران میکڈونلڈ کو ہندوستان میں رائے عامہ کے غیض و غضب کا سامنا کرناپڑ گیاتھا۔ افواہ پھیلا دی گئی کہ میکڈونلڈ فرنچ فرائز گائے کے تیل سے تیار کرتا ہے۔ ہندو حضرات گائے کو مقدس مانتے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ مرنے کے بعد انکے آباﺅ اجداد گائے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔گائے کے مقدس ہونے کی بابت بہت ساری کہانیاں رائج ہیں۔
ایک کہانی یہ ہے کہ گائے ہندﺅوں کی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتی ہے اور یہی اسے مقدس قرار دینے کا راز ہے۔ ہندو اسے کھانے پینے اور کھیتی باڑی کے حوالے سے زندگی کا سرچشمہ مانتے ہیں۔ رفتہ رفتہ گائے کا تقدس ہندوستانی کلچر کا حصہ بن گیا اور یہ کلچر ہندوﺅں کے مذہب میں شامل ہوگیا۔یہ مان لیا گیا کہ گائے کا گوشت یا روغنیات کا استعمال نہیں کیا جائیگا۔ ہندوستان کے بیشترصوبوں میں گائے کے گوشت کے استعمال بلکہ اسے ذخیرہ کرنے تک پر پابندی ہے۔ مذبح میں بچھڑے کا لے جانا قابل سزا جرم ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف اشیاءکی بابت مختلف قسم کے نظریات اور عقائد پائے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں عربوں او رمسلم ممالک میں بھی اپنے عقائد ہیں۔کسی بھی ثقافت کو دیگر ثقافتوں پر تھوپا نہیں جاسکتا۔ ہر ملک اور قوم کے لوگ اپنی ثقافت اور اپنی تہذیب پر چلتے ہیں۔ مذاہب کا تنوع اور تہذیبوں کا اختلاف واجب الاحترام مانا جاتا ہے۔ روا داری کا جذبہ عام کرنا اور اغیار کو جملہ تفصیلات کے ساتھ سمجھنا پرامن بقائے باہم کا اٹوٹ حصہ ہے۔ مثال کے طور پر اہل ریاض سور کا گوشت سنتے ہی گھناﺅنا پن محسوس کرتے ہیں جبکہ سنگاپور میںاسے بیحد رغبت سے کھایا جاتا ہے۔ اسی طرح سنگاپو رمیں اونٹ کا گوشت تصور سے بالا تر شے ہے۔ ریاض میں صورتحال برعکس ہے۔مثالیں بے شمار ہیں۔
دنیا کے ہر ملک میں عجیب و غریب قوانین بنے ہوئے ہیں۔ مثلاً سنگاپورمیں چیونگم کھانے پر پابندی ہے لہذا سامان کا پرچار کرنے والے کو ہر ملک اور قوم کے کلچر کو مدنظر رکھ کر ہی اپنی مصنوعات پیش کرنا ہوتی ہیں۔ میکڈونلڈ پوری دنیا میں مشہور اپنی اہم خوراک بگ میک تبدیل کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ اس نے ہندوستان میں اسکا نام مہاراجہ میک رکھ دیا ہے۔ یہی اصول پیزا ہٹ اور ڈومینوز وغیرہ پر ہندوستان میں کام کرنے والی بڑی کمپنیوں پر لاگو ہوتا ہے۔
مانع تولید اشیاءکی بابت بھی دنیا بھر میں گرما گرم مباحثے ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر حضرات امراض سے بچاﺅ یا امراض کا دائرہ محدود کرنے کیلئے انہیں غیر معمولی اہم قرار دیئے ہوئے ہیں جبکہ اسلامی علماءاور پادری حضرات اس کے سخت مخالف ہیں۔ اسلام اور عیسائیت جیسے مذاہب میں اسے بدکاری کے عمل کے رواج کے مترادف مانا جاتا ہے۔ جنوبی افریقہ میں اسکی مارکیٹنگ بیحد مشکل ہے جہاں ایڈز کی شر دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
نیوزی لینڈ میں ان دنوں 15سے 35برس کے لڑکوں کے پیشاب کے نظام میں کینسر کا مسئلہ اٹھا ہوا ہے۔ وہاں سب سے زیادہ کینسر کے مریض اسی میں مبتلا ہیں۔ اگر بروقت طبی معائنے کا اہتمام کرلیا جائے تو ایسی صورت میں شفا یابی کا تناسب 95فیصد تک بتایا جارہا ہے۔ چونکہ مرد حضرات کسی اور کے سامنے خود کو برہنہ کرنے میں حیا محسوس کرتے ہیں اس وجہ سے طبی معائنہ نہیں کراتے اور آخر میں جاکر لاعلاج کینسر کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک کمپنی نے اس حوالے سے نیا حربہ اختیار کیا ہے جس میں مرد حضرات کی روایتی حیا کا تحفظ بھی ہے اور طبی معائنے کی ضرورت بھی پوری ہوجاتی ہے۔ کمپنی نے اس کے لئے ایک چھوٹا سا اسٹال تیار کیا ہے جہاں ڈاکٹر اور معائنہ کرانے کیلئے آنے والے مرد کی آنکھیں ایک دوسرے سے چار نہیں ہوتیں۔ اس طرح فریقین کسی زحمت میں پڑے بغیر اپنا کام نکال لیتے ہیں۔ اسلام نے ہمیں بڑی اچھی بات سکھائی ہے کہ دین سیکھنے میں کسی طرح کی حیا کی ضرورت نہیں۔ان دنوں بڑی بڑی کمپنیوں کو مارکیٹنگ کے حوالے سے جتنے بھی مسائل کا سامنا ہے انکا کوئی نہ کوئی حل بھی ضرور ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: