یمن سے سعودی عرب کا انخلا ء غلط کیوں؟
عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
یمن کے متحارب فریقوں نے سویڈن میں جو معاہدہ کیا وہ بلاشبہ اہم پیشرفت ہے البتہ اس حوالے سے شکوک و شبہات اپنی جگہ پر قائم ہیں کہ حوثی باغی اس معاہدے کی پابندی کریں گے بھی یا نہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اگر یمن کی سرکاری افواج اور عرب اتحادی الحدیدہ شہر اور بندرگاہ کے قریب نہ پہنچے ہوتے تو حوثی سویڈن میں طے پانے والے معاہدے پر دستخط کےلئے کبھی آگے نہ آتے اور وہ یمن کے اقتدار کے اپنے مطالبے سے کسی بھی قیمت پردستبردار نہ ہوتے۔
آنے والے ایام بتائیں گے کہ حوثی جنگ بندی کے معاہدے کی کس حد تک پابندی کریں گے۔ انہوں نے اس بات کی منظوری دیدی ہے کہ اقوام متحدہ الحدیدة کی تینوں بندرگاہوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لے۔ بندرگاہوں سے ہونے والی آمدنی اسکی نگرانی میں ہو اور وہی وہ آمدنی سینٹرل بینک میں جمع کرائے۔ ان دنوں حوثی ریاستی آمدنی اورامدادی سامان میں لوٹ مار کررہے ہیں۔ اگر حوثیوں نے جنگ بندی کی پابندی کی تو سمجھ لیجئے کہ مسئلہ حل ہونے والا ہے اور جنگ ختم ہونے جارہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ یمن کی جنگ کا کیا جوازتھا ۔ سعودی عرب اور اسکے اتحادیوں نے مداخلت کیوں کی؟ جنگ 4برس سے جاری ہے تاہم ابھی تک اکثر لوگ اس کے محرکات سمجھ نہیں سکے ۔
سعودی عرب نے یمن میں عسکری مداخلت اس وجہ سے نہیں کی کہ وہ یمن کے کسی سیاسی فریق کو دوسرے فریق پر ترجیح دینا چاہتاہو۔ مملکت نے ایران کے ماتحت جماعت کی بغاوت کی سرکوبی کیلئے عسکری مداخلت کی۔ ایران نواز حوثیوں نے یمن میں آنے والے عوامی انقلاب کے بعد اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کے مقرر کردہ فیصلوں کو پس پشت ڈال کر بغاوت کی تھی۔ اسے کچلنا مداخلت کا اصل محرک تھا۔ اگر حوثی صرف یمن کے اقتدار پر انحصار کرتے تب بھی سعودی عرب انکے ساتھ پرامن بقائے باہم کے اصول پر عمل پیرا ہوسکتا تھا۔ مشکل یہ تھی کہ حوثی ایرانیوں کے توسیع پسندانہ عزائم کا منصوبہ بن گئے۔ یہی یمن میں سعودی مداخلت کا باعث بنا۔
اصولی بات یہ ہے کہ سعودی عرب حوثیو ں کی بغاوت کو داخلی مسئلہ ہی سمجھ رہا تھا۔ معذول یمنی صدر علی عبداللہ صالح کے ساتھ مملکت کے تعلقات بہت اچھے نہیں تھے۔ ہمیشہ ان سے اختلافات چلتے رہتے تھے۔ اسکے باوجود سعودی عرب علی صالح کی حکومت کےساتھ کئی عشروں تک معمول کا برتاﺅ کرتا رہا۔ مملکت یمن کے حکمرانوں کی طرف سے چشم پوشی برت سکتی تھی البتہ ایک پہلو نے سعودی عرب کو چونکایا، وہ یہ کہ یمن میں حزب اللہ کے نام سے مسلح تنظیم ہے اور یہ ایرانی حکمرانوں کی ایجاد ہے۔ یہ لبنان میں حزب اللہ جیسی تنظیم ہے۔ 20برس سے ایرانی حوثیوں کی تنظیم کو بنانے سنوارنے میں لگے ہوئے تھے۔ ایران نے اسے سعودی عرب کو زک پہنچانے کیلئے تیار کیا۔ سعودی عرب نے ایران کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات اوریمن کی آئینی حکومت کی مدد کے جذے سے یمن میں مداخلت کی۔
سعودی عرب ، امارات، سوڈان اوردیگرممالک کی افواج آج بھی یمن سے انخلاءکرسکتی ہیں لیکن ہمیں انکے انخلاءکے نتائج کو بھی سمجھنا ہوگا۔ اگر سعودی عرب یمن سے اپنی افواج واپس بلاتا ہے تو وہاں بڑے پیمانے پر خانہ جنگی شروع ہوجائیگی۔ یمن دوسرا شام بن جائیگا۔ وہاں پاکستان، لبنا ن اور عراق سے ہزاروں جنگجو پہنچ جائیں گے۔ دوسرا خطرہ یہ ہے کہ ایران یمن کو سعودی عرب کے اہم شہروں پر میزائل حملوں کے اڈے میں تبدیل کردیگا۔ یہ کام وہ گزشتہ 2برس سے کررہا ہے۔ جدہ، طائف اور ریاض پر بیلسٹک میزائل حملے ہوچکے ہیں۔ نجران، جیزان پر بھی میزائل حملے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کے انخلاءسے یمن میں ایران مسلح طاقت بن کر ابھرے گا۔ وہ باب مندب پر قابض ہوجائیگا۔ وہاں القاعدہ کے جنگجو ہر سو منڈلاتے پھریں گے۔ ایران یمن میں اور بھی مسائل پیدا کریگا۔ پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ سعودی عرب اور اسکے اتحادی یمن سے نکلتے ہیں تب بھی جنگ بند نہیں ہوگی۔ وہاں نسانی جانوں کا ضیاع کم ہوگا نہ ہی بند بلکہ انسانی المیہ دھماکہ خیز شکل اختیار کرلے گا۔ یمن میں حوثیوں کی روایت کے مطابق اب تک 10ہزار اور اتحادیوں کے کہنے کے مطابق 6ہزارافراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ عراق میں 2لاکھ افراد مارے گئے ہیں۔ افغانستان او رلیبیا کا بھی یہی حال ہے۔ تمام تر منفی نتائج کے باوجود یمن کی جنگ کے نقصانات دیگر جگہوں کے مقابلے میں بیحد کم ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ جنگ کے ناقدین بندش کا مطالبہ تو کرتے ہیں لیکن یمن میں امن و استحکام کس طرح قائم ہو، اس سوال کا جواب دینے سے گریز کررہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭