Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کی عنایتیں اور اپنوں کی عداوتیں

عبداللہ الجمیلی ۔ المدینہ
گزشتہ ہفتے میںملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور گیا تھا۔ ایک ریستوران میں بیٹھا ہوا تھا۔ میرے برابر میں کچھ لوگ گپ شپ کررہے تھے۔ گفت و شنید سے پتہ چلا کہ انکا تعلق حزب اللہ سے ہے ۔ 
موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔ میرے برابر میں بیٹھے ہوئے حزب اللہ سے منسوب عربوں نے بارش کا تذکرہ چھیڑا اور سعودی عرب کو اپنی گفتگو کا محور بنالیا۔ ایک کہنے لگا: دیکھئے یہاں موسلا دھار بارش ہورہی ہے۔ اس سے کوالالمپورپر کوئی فرق نہیں پڑرہا جبکہ ریاض اور جدہ میں اس سے کم درجے کی بارش پر دونوں شہر غرق آب ہوگئے تھے۔ یہ لوگ سعودی عرب کے حوالے سے انتہائی مضحکہ خیز اور تنقیدی باتیں کرتے رہے۔ سعودی عرب کے داخلی اور خارجی تعلقات کے تناظر میں مملکت پر تنقید کے تیر برساتے رہے۔
میرے خیال سے اس قسم کے مواقع پر اس قسم کی بحث انفرادی نوعیت کا واقعہ نہیں ہوسکتی۔ میں نے لبنان اور متعدد یورپی ممالک کے دورے کرتے ہوئے اس کے اثرات دیکھے ہیں۔ میں انکا شاہد ہوں۔ دراصل کئی سال پہلے ایک رجحان نے جنم لیا۔ اِن دنوں اس کی شدت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ایران اور اس کے پیرو کار سعودی عرب کے خلاف منظم فکری اور ابلاغی تشہیری مہم چلائے ہوئے ہیں۔ مہم چلانے والوں کو ایران سے مال پانی مل رہا ہے۔ 
عرب رائے عامہ خصوصاً شیعہ فرقے کے لوگوں کو سعودی عرب کے خلاف کھڑا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ صبح شام ارض الحرمین کی توہین کی جارہی ہے۔ حقائق مسخ کرکے پیش کئے جارہے ہیں۔ عرب اور مسلم مسائل کے حق میں سعودی عرب کے کارناموں اور خدمات کو انتہائی معمولی شکل میں بیان کیا جارہا ہے۔ مختلف ذرائع ابلاغ اس طرح عداوت کا اظہار کررہے ہیں۔ کئی چینلز اسی مقصد کیلئے مختص ہیں۔ یورپی ممالک میں نقل مکانی کرنے والے افراد مختلف اخبارات ، نشریاتی اداروں اور سیٹلائٹ چینلز کے لئے کام کررہے ہیں۔
یہ تشہیری مہم اور یہ ابلاغی عداوتیں ایسے ملک کے خلاف بڑھتی جارہی ہیں جو تمام علاقائی و بین الاقوامی تنظیموں میں مسلم عرب مسائل کا پرچم بلند کئے ہوئے ہے اور اتحاد بین المسلمین کو اپنا مشن بنائے ہوئے ہے۔ اپنے بجٹ کا بڑا حصہ اپنے بھائیوں کی مدد کیلئے مختص کئے ہوئے ہے۔
بانی مملکت شاہ عبدالعزیز کے عہد سے لیکر خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے زمانے تک سعودی عرب سیاسی، سماجی اور اقتصادی طور پر مسئلہ فلسطین کا ناصر او رحامی بنا ہوا ہے۔ مملکت نے سالانہ اربوں ڈالر سرکاری طور پر مسئلہ فلسطین کی مدد کیلئے پیش کئے ہیں۔ عوامی سطح پر طلباءو طالبات نے اس میں حصہ لیا ہے۔ لبنان ، سعودی عرب کی ترجیحات میں شامل ہے۔ 1979ءمیں اہل لبنان کے درمیان تاریخی مصالحت اسکا روشن ثبوت ہے۔ اسکے علاوہ بھی سعودی عرب اربوں ڈالر لبنان کو دے چکا ہے۔ 
سعودی عرب اپنے بھائیوں اور دنیا بھر کے ضرورت مندوں کا مدد گار کل بھی تھا اور آج بھی ہے، آئندہ بھی رہے گا۔ وزار ت اطلاعات کو اِس منفی تشہیری مہم کا نوٹس لینا چاہئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: