Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چاروں صوبوں کی زنجیر

**محمد مبشر انوار**
اللہ تبارک و تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس زمین پر انسان اپنے وقت پر آتا ہے اور اپنے وقت پر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے مگر اس وقفے میں جو کردار،اس شخص کے ذمہ ہو،وہ ادا کرتا ہے۔ اپنے اس کردار کے باعث ہی مرد و زن اپنے حلقہ اثر میں یاد رکھا جاتا ، ایسے میں کچھ شخصیات علاقائی شناخت بناتی ہیں تو کچھ قومی جبکہ ان سے بڑھ کر کچھ شخصیات اپنے اپنے مخصوص شعبہ ہائے زندگی میں عالمی شہرت دوام حاصل کرتی ہیں اور رہتی دنیا تک ان کا نام اور پہچان باقی رہتی ہے۔ عالمی شہرت یافتہ شخصیات کیلئے زمان مکان ثانوی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ انکا کردار،ان کا عمل،انکی جدوجہد،ان کی کامیابی یا ناکامی ہی انکی اصل پہچان اور وجہ شہرت ہوتی ہے۔ پاکستان کے سیاسی افق پر سیاسی اعتبار سے عالمگیر شہرت کی حامل شخصیت میں ایک بابائے قوم ہیں تو خاندانی اعتبار سے بھٹو خاندان پاکستان کی سیاست سے لازم و ملزوم ہے۔ دوسرے سیاسی،تجارتی خاندان کی(شریف خاندان) اصل پہچان سیاسی سے زیادہ کاروباری ہو چکی ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جائیگا مزید حقائق سامنے آتے جائینگے اور اس خاندان کے چہرے سے نقاب اترتا چلا جائیگا کہ کیسے اس خاندان نے اس ملک کو نہ صرف لوٹا بلکہ اسے اندرونی طور پر انتہائی کھوکھلا بھی کر دیا ۔ بھٹو خاندان گو کہ موروثی طرز سیاست پر گامزن ہے مگر کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ آج بھی پاکستانی سیاست میں بھٹو فیکٹر موجود ہے۔جب تک پاکستان قائم و دائم ہے،یہ فیکٹر پاکستان کی سیاست میں موجود رہے گا۔ 
برصغیر میں مسلم قوم کا شعور سب سے پہلے سرسید احمد خان کو ہوا،جب انہوں نے وقت کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کی کوشش کی انہیں جدید علوم سے بہرہ ور کرنے اور انگریز قوم سے فاصلوں کو کم کرنے کی خاطرعلی گڑھ کالج کی بنیاد رکھی۔ اس کاوش کو بعد ازاں آل انڈیا مسلم لیگ نے باقاعدہ ایک عملی شکل دی۔ برصغیر کے مسلمانوں کو ایک قوم بننے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ بابائے قوم کی ولولہ انگیز قیادت اور ذاتی ساکھ تھی جس نے انتہائی قلیل وقت میں بکھرے ہوئے مسلمانوں کو ایک قوم میں تبدیل کرکے حصول مقصد کو ممکن بنایا وگرنہ ایک الگ وطن کا حصول اس وقت اتنا آسان قطعی نہ تھا کہ اپنے وقت کی 2مکار ترین قوموں سے آزادی حاصل کی جا سکتی۔ آج بھی ہندوستان میں اقلیتوںکی جو درگت(خیر لمحہ موجود میں پاکستان میں بھی اقلیتیں اتنی محفوظ نہیں رہیں)بن رہی ہے،وہ ساری دنیا پر آشکار ہے ،بالخصوص وہاں کے مسلمان جس ظلم و ستم کا شکار ہیں،وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں اور ہند توا کے پیروکار ببانگ دہل کہتے ہیں کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے۔ اگر یہاں رہناہے تو ہندو بن کے رہو۔ اس مقصدکو حاصل کرنے کیلئے ر اشٹریہ سیوک سنگھ کس طرح بروئے کار ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں مگر اقوام عالم کی زبانیںاس ریاستی دہشت گردی پر اپنے قومی مفادات سے زیادہ بغض مسلم پر گنگ ہیں۔مراد یہ ہے کہ تشکیل قوم کوئی مذاق نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ فقط 23سال کے قلیل عرصہ میں نوزائیدہ پاکستان میں بسنے والی قوم میں شدید دراڑیں پڑ چکی تھی اور 1970کے عام انتخابات میں مشرقی و مغربی پاکستان کے شہریوں کے درمیان وسیع خلیج حائل کردی تھی اور طرفین کے ووٹرز دوسرے امیدوار پر اعتبار کرنے سے قاصر تھے ۔ قوم میں اختلافات کی وسیع خلیج حائل کرنے کے بعد دشمنوں کیلئے یہ نادر موقع تھا کہ دو قومی نظرئیے کیخلاف غبار نکال سکیںجو انہوں نے نکالا۔آج کے پاکستان میں کامیاب ہونے والی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی تھی،جس کی قیادت قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کر رہے تھے اور ان کی قیادت میں موجودہ پاکستان نے قومی سطح پر ترقی کی منزلیں طے کی۔ بھٹو وقت کی مناسبت اور اپنی سیاسی جماعت کے منشور کے عین مطابق اس ملک کی تعمیر میں جتے تھے ،شکست خوردہ قوم کا مورال بلند کرنے کا عزم لئے اسے ایک مربوط اور مستحکم قوم بنانے کا خواب لئے دن رات کوشاں تھے۔ جو مقبولیت اور قبولیت پاکستان پیپلز پارٹی کو مغربی پاکستان میں نصیب ہوئی تھی،وہ اس درماندہ قوم کو بھنور سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو سکتی تھی کہ اسے ایک ایسا قائد نصیب ہو چکا تھا جو اندرونی و بیرونی مسائل سے نہ صرف بخوبی آگاہ تھا بلکہ ان مسائل کو حل کرنے کا عزم اور راستہ بھی جانتا تھا بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ وہ راستہ بنانا بھی جانتا تھا۔بھٹو کے دور میں ڈرائنگ روم سیاست کاخاتمہ ہوا اور ’’غلاموں‘‘ کو زبان ملی،انہیں اپنے حقوق  کے تحفظ کا احساس ہونے لگا،جس نے سرمایہ داروں،جاگیرداروں کی نیندیں حرام کر دی۔بھٹو نے سیاست کو عوامی تو بنایا مگر ریاستی مشینری اس کے فلسفے کو کما حقہ سمجھ نہ سکی اور روٹی ،کپڑا اور مکان کی پالیسی کو بعینہ نافذکرنے میں ناکام رہی۔ رہی سہی کسر قبل ازوقت انتخابات اور بھٹو کے چند ساتھیوں کے ’’بلا مقابلہ‘‘ منتخب ہونے کے شوق نے پوری کر دی،جو بعد ازاں بھٹو کے عدالتی قتل پر منتج ہوئی۔ 
قافلہ مگر رکا نہیں اور قیادت بھٹو کی بیگم ،نصرت بھٹو اور بیٹی(جس کی تربیت خود بھٹو نے کی تھی) کے ہاتھ آ گئی۔ سلسلہ وہیں سے جاری تھا جہاں بھٹو کے اقتدار پر شب خون مارا گیا تھا،لاٹھی ،گولی کی سرکار کا پہلا وار نہتی خواتین پر ہوتا،کارکنان کی باری بعد میں آتی۔ ابتلاء کے اس دور میں جب طاقتوروں میں سے کوئی ایک بھی بھٹوز کی صف میں موجود نہیں تھا۔اللہ اور عوام کے سہارے ان نہتی خواتین نے آمر وقت کو سب اخلاقیات بھلا دیں۔ محترمہ کی جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ اول روز سے ہی واضح تھی۔ ان کی زندگی جمہوری رویوں کا پرتو رہی، محترمہ لولی لنگڑی جمہوریت کے فلسفے کے مطابق ہی اپنی سیاسی زندگی میںسمجھوتے کئے۔اسکے پس منظر میں یہی کلیہ کارفرما نظر آتا ہے کہ وہ کسی بھی طور وطن عزیز میں جمہوریت کا تسلسل چاہتی تھی مگر اس کی جو قیمت انہیں ادا کرنا پڑی ،وہ مقصد سے کہیں بڑھ کررہی۔اس پس منظر میں محترمہ کے پاس کیا آپشن بچتا تھا؟میاں نواز شریف نے جس طرح ادارے تباہ کئے اور میرٹ کا قتل عام کیا،اسکے بعد یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ ریاستی مشینری کے بل بوتے پر پیپلز پارٹی کیلئے کوئی گنجائش چھوڑتے۔اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے محترمہ کا فیصلہ درست تھا کہ نہ صرف فوری طور پر اپنے سیاسی حریف سے جان چھڑائی جاتی بلکہ مقتدرہ سے جمہوریت کے تسلسل کی ضمانت بھی مل جاتی اور نظام چلتا رہتااور یہی محترمہ نے کیا۔ بعد ازاں اپنے اگلے دور حکومت میں میاں نوازشریف نے ان تمام خدشات کو حقیقت کا روپ دے دیا جب انہیں دو تہائی اکثریت دلوائی گئی،مقتدرہ کے بگڑے لاڈلے بچے نے ایسی من مانیاں شروع کی کہ مقتدرہ حلقوں کو بھی فکر لاحق ہوئی وگرنہ مقتدرہ حلقو ں کے نزدیک میاں نوازشریف ایک خدمت گزار کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھے۔ 
’’میثاق جمہوریت‘‘ پر دستخط کرنے اور ’’مفاہمت‘‘ لکھنے کے بعد یہ گمان ہو چلا تھا کہ محترمہ نے اپنی جلا وطنی سے بہت کچھ سیکھا ہے اور آئندہ یہ امید کی جا رہی تھی کہ محترمہ حقیقتاً عوام کی حالت زار کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی مگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور سمجھوتے کی خلاف ورزی کرنے پر مقتدرہ حلقوں نے انہیں سزا دے ڈالی۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں