مجھے کئی برس سے اس شخص کی تلاش ہے جس نے ان سوشل میڈیا میں سے ان کا لفظ غائب کر کے اس کا نام سوشل میڈیا رکھ دیا۔ ہو سکتا ہے کہ سوشل میڈیااس نیت سے تخلیق کیا گیا ہو کہ یہ بلا رنگ و نسل و مذہب و ملت اس کرہ ارض کو صحیح معنوں میں ایک گلوبل ولیج بنا دے گا۔ہم ایک دوسرے سے ربط میں آکر نہ صرف اپنے دکھ سکھ رئیل ٹائم میں بانٹنے کے قابل ہو جائیں گے بلکہ ان گنت مشترکہ مسائل کے درجنوں حل بھی ڈھونڈھ پائیں گے۔میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ 8 ہزار برس پہلے پہیے کی ایجاد کے بعد انسان نے جو سب سے اہم ایجاد کی ہے وہ انٹرنیٹ ہے۔
ابھی کل کی ہی تو بات ہے جب1992ء میں بی بی سی اردو کے سائنس میگزین دریافت میں بطور پریزینٹر میں نے ہی یہ خبر پڑھی تھی کہ وائٹ ہائوس کے سائوتھ ونگ سے نارتھ ونگ تک ایک کمپیوٹر کے ذریعے صدر بل کلنٹن نے پہلی ای میل بھیجی ہے۔اور آج 26 برس بعد جب میں یہ واقعہ سوچتا ہوں تو خود ہی ہنس پڑتا ہوں۔
یہ بالکل درست ہے کہ سوشل میڈیا تک ہر شخص کی ممکنہ رسائی کے سبب اب خبر پر خبر کے ٹھیکیداروں کی اجارہ داری ختم ہو چکی ہے۔اب کوئی چاہے بھی تو یو ٹیوب بند کرنے کے باوجود یو ٹیوب نہیں بند کر سکتا کیونکہ میرے ہاتھ میں اس تک گھوم گھما کر پہنچانے والے کئی سافٹ وئیرز ہیں۔اب کوئی ایڈیٹر میرا مضمون چھاپنے سے انکار کرے گا تو میں اسے فیس بک پر ڈال دوں گا۔سوشل میڈیا نے لوگوں کی زباں بندی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کالعدم کردیا۔جن ممالک میں سوشل میڈیا کو سائبر قوانین کی زنجیریں پہنانے کی کوشش کی گئی انہی ممالک میں دس پندرہ سال کے بچوں نے ان زنجیروں کو اڑا کے رکھ دیا۔وکی لیکس سوشل میڈیا کی انقلابی فضا میں ہی پنپ سکتا تھا۔اگر انٹرنیٹ نہ ہوتا تو پانامہ لیکس بھی نہ ہوتا۔ریختہ کی ویب سائٹ بھی نہ ہوتی جس نے اُردو کو زبان کی حد سے نکال کر عالمی لسانی فیشن کے ریمپ پر کھڑا کردیا۔ ترکی کے ساحل پر 3 سالہ ایلان الکردی کی اوندھی لاش وائرل نہ ہوتی تو یورپ شامی پناہ گزینوں کے لئے اپنے دروازے شاید نہ کھولتا۔غرض سوشل میڈیا نے ان گنت امکانات کا دروازہ کھول دیا۔لیکن میں پھر اسی جانب آئوں گا کہ جس بے دریغانہ طریقے سے ہم سوشل میڈیا ٹول استعمال کر رہے ہیں اس کے سبب کیا ہم ایک دوسرے سے جڑ رہے ہیں یا دور ہو رہے ہیں۔ مثلاً اس کا کیا کریں کہ پہلے ہم میاں بیوی ، میاں بیوی ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے دو چار منٹ ہی سہی پر اچھی اچھی باتیں کر لیتے تھے۔اب وہ رات بھر میرے پاس ورڈ کی تلاش میں رہتی ہے اور میں دن بھر اس کا پاس ورڈ بریک کرنے کی ترکیبوں کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔جب بجلی نہ ہو تو میرا بیٹا میری گود میں سر رکھ کے کہانی سننے کی فرمائش کرتا ہے اور جیسے ہی بجلی آتی ہے وہ کہانی آدھے میں چھوڑ کر انٹرنیٹ کی گود میں سر رکھ دیتا ہے اور میں ایک منٹ سن تو لو بیٹا کرتا رہ جاتا ہوں۔بفضل سوشل میڈیا ٹیکنا لوجی اپنے بچوں کے لئے میں ایک بیک ورڈ باپ ہوں کیونکہ مجھے ڈان لوڈنگ کے نئے شارٹ کٹس نہیں معلوم ۔میں ان کی طرح تیزی سے کی بورڈ پر انگلیوں کو کتھک نہیں کروا سکتا۔میں وقت بچانے کی خاطر ہا ہا ہا، ویری فنی کے بجائے ایل او ایل لول نہیں لکھ پاتا۔
مجھ جیسے کروڑوں سادوں کا اگر سوشل میڈیا سے تعلق ہے تو فیس بک کے ناتے سے مگر راستے میں انتہا پسندی و شدت پسندی سے لتھڑے بیسیوں تبصراتی ندی نالے پھلانگنے پڑتے ہیں ۔یہی پتا نہیں چلتا کہ جو تصویر مجھے خوش یا اداس کر رہی ہے واقعی اوریجنل ہے یا فوٹو شاپ کے بیت الخلاسے گذر کے مجھ تک پہنچی ہے۔کہنے کو سوشل میڈیا نے مجھے آزاد کردیا ہے مگر صرف مجھے آزاد نہیں کیا۔ریچھوں ، بندروں ، لومڑیوں ، سانپوں اور حشراتِ الارض کو بھی آزاد کردیا ہے۔کچھ پتہ نہیں چلتا کہ آپ کے کس جملے کا کوئی مفہوم کوئی بھی آدمی کچھ اور لے کر آپ کو کب دائرہِ اسلام سے خارج کردے یا داخل کرلے۔اپنی پسندیدہ شخصیت پر ذرا سی بھی تنقید کے ردِ عمل میں آپ کو گالیوں کے نشانے پر رکھ لے۔آپ کی تصویر کو ہار پہنا دے یا آپ کا چہرہ کاٹ کے حنزیر پر فٹ کر دے۔اب آپ پر افراد حملے نہیں کرتے پورے پورے سائبر غول آپ کی رائے پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ مجھے تو یہی نہیں معلوم ہوتا کہ جو نورین میری ہر تحریر کی تحریری پرستار ہے وہ واقعی نورین ہے یا چوہدری ستار ہے۔
مگر نورین کی مشکل یہ ہے کہ اگر وہ سوشل میڈیا پر اپنی اصل آئیڈنٹیٹی کے ساتھ اصلی تصویر لگائے تو بلیک میلر لگڑ بگے اس کا جینا حرام کرنے کے لئے شست لگائے منتظر رہتے ہیں۔
یہ سوشل میڈیا کا ہی تو فیض ہے کہ جنہیں پڑھنا چاہئے وہ لکھ رہے ہیں ۔جنہیں سننا چاہئے وہ بول رہے ہیں۔جنہیں بولنا چاہئے وہ چپ ہیں۔ہاں سوشل میڈیا پر اردو ویب سائٹس اور پیجز بھی ہیں۔ان پر معیاری مضامین اور تنقیدی مباحث بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔بعض ویب سائٹس زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شائستگی کے ساتھ تحریری اظہار کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں اور اختلافِ رائے کا بھی خیر مقدم کرتی ہیںمگر ایسی ویب سائٹس کی تعداد ابھی بہت کم ہے۔
پہلے لیڈر بیان جاری کرتے تھے اب صرف ٹویٹیاتے ہیں۔پہلے اسٹیبلشمنٹ پریس ریلیز جاری کرتی تھی ، پریس کانفرنس کرتی تھی ، خبر گیروں سے رابطہ کر کے موقف سمجھاتی تھی۔اب ملک پر ٹوئٹر والی سرکار کی حکمرانی ہے۔پہلے پترکار اور تجزیہ کار بالمشافہ بریفنگ لیتے تھے۔اب فیصلہ سازوں کے واٹس ایپ گروپ میں داخل اور خارج ہونے پر سینہ پھلاتے ہیں۔آمریت بھی واٹس ایپ پر اتر آئی ہے۔