مسائل کا حل، گھنٹوں کے اعتبار سے محنتانہ
جمعرات 27 دسمبر 2018 3:00
محمد العوفی ۔ مکہ
اس میں ذرا برابر شک نہیں کہ تنخواہوں میں اضافے اور پیداواری عمل میں بہتری کا رشتہ چولی دامن والا ہے۔ تنخواہوں یا محنتانوں اور معاشی اخراجات میں فرق نہ کرنے والے منفی نتائج کا باعث بنتے ہیں۔ یہ نتائج کبھی مستقبل قریب میں سامنے آجاتے ہیں اور کبھی لمبی مدت کے بعد برآمد ہوتے ہیں۔ معاشی اخراجات اور تنخواہوں کے درمیان توازن پیدا نہ کرنے کا نتیجہ بچت میں کمی اور اقتصادی ترقی کے عمل کی حوصلہ شکنی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ گھنٹوں کے اعتبار سے محنتانے کا تعین وزارت محنت و سماجی بہبود کی ذمہ داری ہے۔ صرف اسی کی ذمہ داری ہے، کوئی بھی اس کے سوا اس کا حق نہیں رکھتا۔
ایسا لگتا ہے کہ وزارت محنت یا تو اپنے اس حق سے دستبردار ہوگئی ہے یا وہ نجی اداروں پر اپنا حق تھوپنے کے سلسلے میں تذبذب کا شکار ہے۔ وزیر محنت احمد الراجحی نے جازان ایوان صنعت و تجارت میں سعودی سرمایہ کار خواتین و حضرات سے ملاقات کے موقع پر جو بیان دیا وہ اسی کا غماز ہے۔ انہوں نے نجی اداروں سے کہا کہ وہ سعودی شہریوں کی تنخواہیں بڑھائیں۔ اتنی بڑھائیں کہ سعودی ملازمین کو اپنی محنت کی اجرت مناسب اور تسلی بخش محسوس ہونے لگے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نجی اداروں کے ارباب اپنے طو رپر یہ بات چیک کریں کہ جب وہ اپنے ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کرتے ہیں تو کیا اس کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے یا نہیں۔ وزیر محنت نے اپنی بات یہ کہہ کر ختم کی کہ ارباب محنت کو یہ سوچنا چاہئے کہ سعودی ملازم بالاخر ہمارے بیٹے اوربیٹیاں ہی ہیں۔ اگر آپ انہیں تنخواہ کم دیں گے تو وہ ملازمت جاری نہیں رکھ سکیں گے۔
وزیر محنت کے بیان کا ایک جملہ غور طلب ہے۔ انکا یہ کہناکہ ”اگر آپ تنخواہ کم دیں گے تو کارکن محنت جاری نہیں رکھ سکے گا“۔ وزیر محنت نے اس ایک جملے میں سعودی لیبر مارکیٹ کے حقیقی مسئلے کی نشاندہی کردی۔ انہوں نے اس کا اعتراف بھی کرلیا۔ اسی کے ساتھ انہوں نے اس مسئلے کے حل کا عندیہ بھی دیدیا البتہ انہوں نے ایک کام جو کرنا تھا او ر جونہیں کیا وہ یہ کہ تنخواہوں میں کمی کے مسئلے کا نسخہ کیا ہو؟ تنخواہوں کی حد میں اتنا اضافہ کہ کارکن کو احساس ہو کہ اب اسے زیادہ محنت کرنا ہے اور جدوجہد مسلسل جاری رکھنی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیر محنت کو اس بات کا احساس اور ادراک ہے کہ سعودی لیبر مارکیٹ میں ابھی تک مطلوبہ پختگی نہیں آئی۔ انہیں یہ احساس ہے کہ نجی ادارے اپنے طور پر تنخواہوں میں اضافے کا کوئی اقدام نہیں کرینگے۔ اگر گھنٹے کے حساب سے محنتانے کی کم از کم حد مقرر نہ کی گئی تو تنخواہوں میں اضافے کی اپیل ہوا میں تحلیل ہوجائیگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ گھنٹے کے اعتبار سے کم از کم محنتانہ متعین ہو اور اس پر عملدرآمد کو لازمی کیا جائے۔
گھنٹے کے حساب سے کم از کم محنتانے کی نشاندہی کا فیصلہ نجی اداروں کے ارباب کے مزاج پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اگر ایسا کیا گیا تو ہر ادارہ اپنے مفادات کے مطابق گھنٹے کے اعتبار سے کم از کم محنتانہ مقرر کرلے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ گھنٹے کے اعتبار سے کم از کم محنتانے کی نشاندہی کے کچھ اصول و ضوابط ہوں۔ اسے معاشی اخراجات میں ہونے والی تبدیلیوں سے مربوط کیا جائے ۔ کم از کم محنتانہ اتنا ہو کہ کارکن کو اس سے سماجی تحفظ حاصل ہو۔ اسی تناظر میں بہت سارے وہ ممالک جو گھنٹے کے اعتبار سے محنتانہ نظام نافذ کئے ہوئے ہیں ،وہ محنتانے میں اضافہ معاشی لاگت میں تبدیلی کے اصول کے مطابق کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر برطانیہ کو لے لیجئے، جہاں ایک گھنٹے کام کا کم از کم محنتانہ 7اسٹرلنگ پونڈ ہے۔ یہ محنتانہ اکتوبر 2016ءمیں مقرر کیا گیا تھا۔ برطانوی حکومت 2020ءمیں ایک گھنٹے کا کم از کم محنتانہ 9اسٹرلنگ پونڈ مقرر کریگی۔ امریکہ میں ایک گھنٹے کا کم از کم محنتانہ 8.75ڈالر ہے۔
مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ وزارت محنت نے اگر فی گھنٹہ محنتانے کی کم از کم حد مقرر نہ کی اور اس پر عملدرآمد لازمی نہ کیا تو وہ اپنا یہ ہدف کبھی حاصل نہیں کرسکے گی کہ مقامی شہری نجی اداروں میں مستقل بنیادوں پر ملازمت جاری رکھ سکیں۔ وجہ یہ ہے کہ اگر گھنٹے کے اعتبار سے محنتانے کی کم از کم حد مقرر نہ کی گئی تو ایسی صورت میں نئے ملازمین لیبر مارکیٹ کا رخ کرتے ہوئے وحشت محسوس کرینگے۔ کم از کم محنتانہ ہی ملازم کو لیبر مارکیٹ کا رخ کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ میں نہیں کہتا کہ محنتانے کی انتہائی حد مقرر کی جائے۔ اس کو تعلیمی معیار اور کارکن کی مہارتوں پر چھوڑدیا جائے۔ جس کے پاس جیسی ڈگری ہو اور جو جتنا زیادہ اپنے کام کا تجربہ رکھتا ہو اور جتنا وہ اپنے کام میں ہنر مند ہو اُسے اسی حساب سے تنخواہ دی جانی چاہئے۔ اضافہ بھی اسی بنیاد پر کیا جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭