سعودی عرب جرائم کی شرح میں سب سے کم
علی خذران القرنی ۔ المدینہ
اللہ کا فضل وکرم ہے کہ سعودی عرب کا شمار دنیا کے ان ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں جرائم کی شرح بہت معمولی ہے۔ خاص طور پر قتل وغیرہ کے جرائم مملکت میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ حدود کے قانون پر عملدرآمد کا ثمر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں حدود کا نظام دیکر ہمیں جرائم کا معاشرہ بننے سے بچا رکھا ہے۔ قرآن و سنت میں ہر طرح کے ظلم کی نکیر کی گئی ہے۔ ناحق قتل کو سنگین جرم قرار دیا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کا خون بہا دے تو ایسی صورت میں عدالت کا موثر نظام اسے جان کے بدلے جان کے اسلامی قانون کے ذریعے قرار واقعی سزا دلادیتا ہے۔ اچھی شہرت رکھنے والے خدا ترسی کی خوبی سے آراستہ باکمال جج نفاذ شریعت کے سلسلے میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اس کے شاہد اپنوں سے کہیں زیادہ پرائے ہیں۔
سعودی وزارت انصاف نے حالیہ ایام میں اپنے نظام کو مزید موثر بنایا ہے۔ عدالتوں کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا ہے۔ قوانین کو ترتیب دیا گیا ہے اور شرعی احکام کو منظم شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ ا س کی بدولت دفتر ی کارروائی نہ صرف یہ کہ مختصر ہوئی ہے بلکہ آسان بھی ہوگئی ہے۔ اس سے عوام راحت محسوس کرتے ہیں۔ اللہ کا کرم ہے کہ عدالتی عمل جدید سے جدید تر ، بہتر سے بہتر تر اور مثالی سے مثالی تر بنتا چلا جارہا ہے۔ نظام فطرت یہی ہے کہ ماضی کے مقابلے میں حال زیادہ بہتر ہو اور حال کے مقابلے میں مستقبل زیادہ اچھا ہو۔
عدالتی نظام میں بہتری سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا نتیجہ ہے پھر سعودی حکومت۔ اللہ اسے قائم و دائم رکھے۔ اس سلسلے میں مسلسل جدوجہد کرکے اسے اچھا بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزاور انکے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہر سطح پر وطن عزیز کی تعمیر و ترقی کیلئے سرگرم ہیں۔ سعودی وژن 2030ءکے تحت زندگی کے ہر شعبے کو جدید خطوط پر استوار کیا جارہا ہے۔
میں بلکہ وطن عزیز کاہر وہ شہری جسے ملک و قوم کا مفاد عزیز ہے ،وہ اپنے وزیر انصاف سے ہر جدید و مفید کا آرزو مند ہے۔ ہمارے وزیر انصاف اپنے اخلاص اور موثر اقدامات کے حوالے سے اپنی پہچان بنائے ہوئے ہیں۔ انکی کوشش ہوتی ہے کہ انصاف لینے اور دلانے کے حوالے سے جو نئی تجویز سامنے آئے اسے عملی جامہ پہنانے کا اہتمام کیاجائے۔ ہماری آرزو ہے کہ وزیر انصاف قتل عمد کی دیت کے سلسلے میں نظر ثانی کریں۔ دیت کی رقم مبالغہ آمیز حد تک بڑھا دی گئی ہے۔ لاکھوں تک پہنچا دی گئی ہے۔ خاص طور پر قبائلی مزاج کے لوگ دیت کو ناک کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ اس سے بھاری نقصان ہورہا ہے۔ یہ حکم ربی کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ میرا خیال ہے کہ دیت کا حد سے زیادہ مطالبہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بہتر ہوگا کہ وزارت انصاف دیت کی انتہائی رقم متعین کردے اور خلاف ورزی کرنے والے کےلئے سزا بھی مقرر کردے۔ اگر کوئی شخض دیت کی انتہائی رقم قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو تو ایسی صور ت میں قصاص کے فیصلے پر عملدرآمد کو ترجیح دی جائے کہ اسی میں ہم سب لوگوں کا مفاد مضمر ہے۔ اللہ نے یہی کہا ہے اور ہمیں اس پر یقین ہونا چاہئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭