صوبائی خود مختاری لپیٹنے کی کوششیں
کراچی ( صلاح الدین حیدر) صوبوں اور وفاق کے درمیان تنازعات کوئی نئی بات نہیں۔ برسوں سے یہی روایت چلی آرہی ہے۔وفاق اپنی آمدنی میں سے صوبوں کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق صوبوں کو طے شدہ فارمولا کے تحت رقم فراہم کرنے کا پابند ہے۔ مہذب دنیا میں اصولوں کو ہر بات پر فوقیت حاصل ہوتی ہے مگر پاکستان میں شہید ملت لیاقت علی خان کے بعد سے حکمرانوں کی مرضی اور احکامات ہی چلتے ہیں۔حق کو کوئی نہیں پسند کرتا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں آئین میں 18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو خاصی خود مختاری 70 سال میں پہلی مرتبہ دی گئی گو کہ اب بھی یہ کافی نہیں لیکن جو مل گیا اسے ہی بہتر جانیئے۔ پچھلے کئی ماہ سے ملک کے جنوبی سندھ میں جہاں 2008ءسے اب تک پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ کشیدگی کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جارہی ہے۔ سندھ کے وزیر اعلی کو شروع سے شکایت رہی ہے کہ سندھ کو دریائے سندھ سے اس کے حصے کا پانی نہیں ملتا ۔وفاق کے مسائل سے صوبوں کو جو رقم تقسیم کی جانی چاہیے وہ نہیں ملتی۔ انہوں نے اپنے تازہ ترین بیان میں شکوہ کیا کہ وفاق سے اس سال صوبوں کے 104 ارب روپے کم دیئے گئے۔ سندھ کا خیال ہے کہ اسے وفاق سے اس کے حصے کی رقم نہیں مل رہی جس سے بہت سارے منصوبے تعطل یا تاخیر کا شکار ہیں۔ ان میں کراچی کیلئے پانی کا کے فور منصوبہ شامل ہے۔ صرف دو روز پہلے وزیر اعظم عمران خان نے ایک اعلی سطح کے اجلاس کی اسلام آباد میں صدارت کی جس میں خیبرپختونخوا اور پنجاب کے وزیر اعلی محمود خان اور عثمان بزدار اور کے بی کے کے گورنر شاہ فرمان کو مدعو کیا گیا لیکن یا تو سندھ اور بلوچستان کے وزراءاعلی کو دعوت نہیں دی گئی یا پھر وہ خود ہی غیر حاضر رہے۔ زیادہ امکان اسی کا ہے کہ دونوں حضرات کو نظر انداز کردیا گیا۔ یہ بات مملکت کو استحکام دینے میں کسی نہ کسی دن بہت بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ مراد علی شاہ کو ایک اور شکایت پیدا ہو گئی ہے کہ وفاق کو صوبوں سے ٹیکس جمع کرنے کا اختیار لینا سراسر ناانصافی ہوگی لیکن خبریں کچھ ایسی ہی ہیں کہ وفاقی حکومت قوانین میں ترمیم کے ذریعے ٹیکسوں کے نظام کو پوری طرح اپنے اختیار میں کرنا چاہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد تو تحریک انصاف اور اس کی حکومت کے خلاف محاذآرائی لازمی ہے جو شروع ہوچکی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ پی ٹی آئی اور عمران پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ تنقید کی بوچھار نہیں کرتے۔ عمران نے اجلاس میں شریک وزراءاور گورنر کو ہدایت کی کہ وفاقی حکومت کے کارناموں کی صحیح طور پر تشہیر نہیں ہوتی جس سے عوام تک صحیح باتیں نہیں پہنچ پاتیں۔ عمران کو خود بھی سوچنا چاہیے کہ ان کی میڈیا ٹیم میں فوج ظفر موج کی آخر تیاری کیا ہے۔ وزیر اطلاعات کو ہر بات پر پریس کانفرنس کرنے کا روز اول سے شوق ہے۔ حکومتی پالیسیوں کی بات ہو یا امور خارجہ یا مالی معاملات ہر بات پر انہیں بات کرنے کا بے حد شوق ہے پھر حکومتی ترجمان بھی علیحدہ سے ہیں۔ وزیراعظم کے ترجمان علیحدہ ہیں۔ جن میں ایک وزیر صاحب اور پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق سربراہ ہیں جنہوں نے اب اپنا ٹی وی چینل کھول لیا ۔ آخر چپ کیوںسادھے رکھتے ہیں کوئی بھی تو ان میں سے نہیں بولتا۔ ایسا لگتا ہے کہ فواد چوہدری سب پر بھرپور طریقے سے حاوی ہیں۔ کسی کو شاید زبان کھولنے کی اجازت ہی نہیں۔ 18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو تھوڑی بہت ہی صحیح خود مختاری دی گئی۔
گو کہ یہ کافی نہیں لیکن اب الزام یہ لگتا ہے کہ اسے بھی لپیٹنے کا سامان کیا جارہا ہے۔ اگر وفاق اور صوبوں کے درمیان محاذآرائی جاری رہی تو ملکی استحکام پر برا اثر پڑنے کا خدشہ ہے، عمران کو یہ سوچنا چاہیے۔