Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزراءکے بیانات جلتی پر تیل

کراچی ( صلاح الدین حیدر) تحریک انصاف کی حکومت نے معیشت کی بحالی کیلئے شب و روز ایک کردیئے لیکن پھر وہی پرانی مثل کہ ”روز سب کا عجیب عالم ہے۔ کام بے حد ہے زندگی کم ہے۔“ عمران خان کو بحیثیت وزیراعظم اب بھی قوم عزت و احترام کی نگاہ دے دیکھتی ہے لیکن ان کے وزراءمیں یکسوئی نظر نہیں آتی۔ کچھ تو بے پر کی اڑانے میں مصروف ہیں۔ چند ایک اپوزیشن سے محاذآرائی بلکہ جنگ و جدل پر آمادہ، مگر پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ مگر ایسے بھی ہیں جو سوچ سمجھ کر ہر بات کو تول کر اور سچ کہنے میں عار نہیں کرتے ایسے ہی لوگ عمران سے مخلص ہیں جو قوم کو حقائق سے آگاہ رکھنے میں نہیں ہچکچاتے۔ ان میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سب سے آگے ہیں لیکن ان کا کام آسان نہیں۔ بین الاقوامی امور میں موجودہ حکومت نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ معیشت ضروری مسئلہ ہے، جس کو عمران نے بھی تسلیم کیا کہ راستہ آسان نہیں۔ ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔ وزیر مملکت حماد اظہر قوم کو گمراہ کرنے کے بجائے بالکل صحیح اطلاع فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے صاف صاف بتادیا کہ حکومت کو لاتعداد مسائل کا سامنا ہے، جنہیں سلجھانے میں وقت لگا۔ پچھلے 5 مہینوں میں حکومت وقت کئی ایک اچھے اقدامات کئے ہیں جن سے مالی خسارہ کم کرنے میں مدد تو ملی ہے لیکن جو ہدف سامنے تھا وہ شاید ہی فوراً پورا ہوسکے۔ اسی صاف گوئی کی ضرورت ہے تاکہ عوام بھی خوش فہمی میں مبتلا رہنے کے بجائے کمر باندھ لیں کہ انہیں ابھی مشکلات پر قابو پانے میں وقت لگے گا۔
وزیر موصوف کا کہنا کہ صنعتوں کی بحالی کیلئے حالت سازگار بنانا اہم ہے۔ اس کے لئے وقت درکار ہے۔ اسی لئے گیس سرچارج لگایا گیا۔ ٹیکس جمع کرنے کی جدوجہد جاری ہے۔ پاکستان میں 8000 ارب روپے کے ٹیکس حاصل کئے جاسکتے ہیں لیکن ابھی تک صرف 4000 ارب روپے کے ٹیکسوں کا ہدف پورا ہوا ہے۔ امید ہے کہ ٹیکسوں کے حصول میں اضافہ ہوگا، بین الاقوامی تنظیم موڈیز کے مطابق حکومت کو 6 فیصد بجٹ خسارہ پورا کرنے میں وقت لگے گا۔ بالکل صحیح اندازہ ہے لیکن موڈیز نے ضمنی بجٹ کو جو پچھلے مہینے پیش کیا گیا۔ اسے سراہا ہے کہ اس سے معیشت بحال کرنے میں مدد ملے گی۔ برآمدات بڑھیں گی۔ حکومت نے بھاری منافع بخش قرضے بانڈ جاری کرنے کا ۔ اب سوچا ہے تاکہ نتیجہ حوصلہ افزا ہو، موجود مالی سال کے پہلے 7 مہینوں کے عرصہ میں ٹیکس گزاروں کی تعداد میں 36 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 31 دسمبر 2017ءکو 11,79000 ٹیکس گوشوارے داخل ہوئے تھے جبکہ دسمبر 2018ءمیں ٹیکس دہندگان کی تعداد 16,3000 تک جاپہنچی ہے۔ ٹیکس فائل کرنے کو مزید آسان بنایا جارہا ہے، تاکہ عام آدمی بھی خود سے ٹیکس فارم بھر سکے اور ٹیکس افسران کی ریشہ دوانیاں سے نجات مل جائے۔ آن لائن ٹیکس کی سہولت میں کافی اضافہ کیا جارہا ہے۔ حکومت کا مزید بانڈ جاری کرنے اور قرضے لینے کا منصوبہ بھی ہے۔ دنیا بھر میں اندرون سرمایہ کاری کی سہولتیں مختلف اشکال میں دی جارہی ہیں۔ پرائز بانڈ اور سیونگ سرٹیفکیٹ جیسی اسکیمیں خزانے میں زیادہ سے زیادہ پیسہ لائیں گی۔ قوم تو پھر مشکل سہنے کو تیار ہے۔ لیکن وزراءکے بیانات جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ وفاقی وزیر برائے پٹرولیم غلام سرور خان یہ کہہ کرکہ کب تک سبسڈی دینگے۔ گیس کی قیمت میں اضافہ عوام برداشت کرے، بہت بڑی غلطی کی ہے، ناامیدی نہیں پھیلائی جاتی، عوام کی حوصلہ افزائی کی جانے میں ہی عافیت ہے۔ عوام کا حوصلہ بڑھانے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ عمران کو ٹوٹی پھوٹی شکستہ کشتی ملی لیکن ناامیدی کیوں بڑھائی جائے، کاش کوئی ان وزراءکو عقل کی تلقین کرے کہ وہ صحیح بات کریں اور عوام کی صحیح رہنمائی کریں تاکہ قوم جلد مشکلات پر قابو پاکر سکون کا سانس لے سکے۔
 

شیئر: