پاکستان میں اسکولوں کی ناگفتہ بہ حالت
کراچی ( صلاح الدین حیدر) وزیراعظم عمران خان نے 17 سال کی جدوجہد کے بعد 2013ءمیں پہلی کامیابی اس وقت حاصل کی جب انہیں خیبرپختونخوا میں جماعت اسلامی اور سابق وزیر داخلہ آفتاب شیرپاو کی مدد سے مخلوط حکومت بنانے کا مو قع ملا۔ اس وقت انہوں نے اعلان کیا تھا کہ صوبے میں سرکاری اسکولوں کی حالت نجی اسکولوں سے بہتر بنادی گئی لیکن آج جب کے وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں اور انہیں 3 چوتھائی اکثریت صوبائی اسمبلی میں حاصل ہیں، اس وقت کے پی کے میں گورنمنٹ اسکولوں کی حالت غیر ہے۔ایک اخباری رپورٹ کے مطابق قبائلی علاقوں کے 200 اسکولوں میں پینے کا صاف پانی اور بیت الخلاءغائب ہیں۔ یہ اسکول خاص طور پر لڑکیوں کے لئے بنائے گئے ہیںاور بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
ایک صوبائی وزیر جس نے اپنا نام بتانے سے معذرت کرلی کے مطابق4,961 کے نصف نجی اسکولوں میں جو کہ ان 7 ضلعوں میں قائم ہیں لڑکے اور لڑکیوں کے لئے پینے کا پانی، بیت الخلائ، بجلی اور باونڈری کی دیواریں نہیں ۔ ایک اعلی تعلیمی ادارے کے سربراہ کی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ ان تمام علاقوں میں 79 فیصد لڑکیوں نے اپنا نام خارج کرالیا۔
صوبائی کابینہ نے حالیہ اجلاس میں صوبوں کے 300 گاﺅںمیں سورج سے روشنی پیدا کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں لیکن شعبہ تعلیم جہاں نئی نسل پروان چڑھتی ہیں ان سہولتوں سے محروم ہیں۔ ان کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں ہے۔ اس سے برا حال جنوبی صوبہ سندھ میں ہے جہاں کے اکثر اساتذہ اسکول آتے ہی نہیں۔ گھر بیٹھے تنخواہ اور مراعات حاصل کرتے ہیں۔ ان اسکولوں کی عمارتیں یا تو بھوت بنگلہ بنی ہوئی ہیں یا پھر یہاں وڈیروں کے جانور، گائے، بھینسیں، بھیڑ، وغیرہ بندھی رہتی ہیں۔ تعلیم کا معیار اس قدر پست ہوگیا کہ اللہ کی پناہ۔ اس پر طرہ یہ کہ پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں پچھلے 10 برس سے قائم ہے۔ پارٹی کے سربراہ کے نزدیک ترقی کا معیار کیا ہے وہی بتاسکتے ہیں۔