Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منزہ کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا، وہ بات کی گہرائی تک پہنچ گئی

والدین ان دنوں رشتے کے تعلق سے کافی فکرمند تھے لیکن اس طرح اچانک راحیل کے تعلق سے بات ہوگی یہ منزہ نے سوچا نہیں تھا
ناہیدطاہر ۔ ریاض
چھوٹے قدم رکھتی ہوئی بہت آہستگی سے دروازے کے قریب پہنچی۔۔تاکہ اندر چل رہی گفتگو کو سن سکے۔۔۔۔ابو کوئی بات سمجھا رہے تھے۔۔۔۔۔ راحیل جسے مکمل اردو نہیں آتی تھی درمیان میں اپنی صوبائی زبان کے ساتھ اردو کی آمیزش  کرتا ہوا جواب دے رہا تھا۔۔۔منزہ کوپتا نہیں کیوں راحیل کا یہ ٹوٹا پھوٹا انداز اچھا لگا۔مضبوط لہجہ اور مکمل اعتماد کے ساتھ اپنی بات پیش کرنے کا انداز بیان منزہ کو متاثر کررہا تھا۔
دوسری شام بھی وہ آیا تو منزہ چائے لے کر خود ہی ڈرائنگ روم میں چلی گئی۔۔۔۔ابو نے بیٹھنے کو کہا تو وہ وہاں نہیں رکی۔۔۔کیونکہ  راحیل کی نظروں کی تپش اس سے برداشت نہیں ہورہی تھی۔
باہر آنگن میں چلی آئی پودوں کی مٹی خشک ہورہی تھی۔انھیں پانی سے سیراب کیا۔ چند گلاب کھل گئے  تھے ان کو شاخوں سے جدا کرلیا۔کسی کانٹے نے گستاخی کی تووہ سی کرتی ہوئی اپنی انگلی کو دبائی۔۔۔خون کی چھوٹی سی بوند ابھر آئی تھی۔اس نے مسکرا کر اسے صاف کیا اور پھولوں کو رخسار سے لگایا۔۔۔۔راحیل کے جوتے قرینہ سے رکھے تھے۔۔۔غیر شعوری طور سے وہ آگے بڑھی اور ان چمکتے جوتوں میں اپنے چھوٹے کومل پیر پھنسا دیئے۔۔۔۔جوتوں کا سا ئز کافی بڑا تھا۔منزہ عجیب انداز میں مسکراپڑی۔۔۔۔اس حرکت سے دل دھڑکنے لگا تھا۔تب ہی اچانک سے  راحیل باہر چلا آیا۔منزہ کو یوں اپنے جوتے پہنا دیکھ کر اس کے چہرے پر شوخ سی مسکراہٹ پھیل گئی۔منزہ  نیسٹپٹا کر جوتوں سے اپنے پیر نکال لئیلیے۔ جوتے پسند آئے؟ وہ سوال کررہاتھا
جی۔۔۔۔جی نہیں تو
اچھے نہیں ؟  راحیل کالہجہ بجھ گیا
بہت اچھے ہیں۔
یہ سن کر اس کی آنکھیں دوبارہ چمک اٹھیں۔۔۔وہ خوش ہوتا شوخی سے بولا
رکھ لو !!
ار ے  میں کیا کروں ، ان مردانہ جوتوں کا۔منزہ شرما کر ہنس دی۔
جواب میں وہ بھی مسکرایااور منزہ کے چہرے کو دیکھتا رہا۔منزہ شرم سے سرخ ہونے لگی۔
کالج جاتی ہو؟
جی نہیں
کیوں؟ پڑھنے کا شوق نہیں ؟
بہت زیادہ !!
یہ بہت زیادہ کیا ہوتا ہے؟
بہت زیادہ نہیں یا بہت زیادہ ہے؟؟؟
بہت زیادہ ہے۔۔۔اس نے ہنس کر جواب دیا۔
راحیل اس گفتگو سے محظوظ ہونے لگا
ہم۔۔۔پھر پڑھائی کیوں چھوڑدی؟
ان شاء اللہ اس جون میں ایڈمیشن لوں گی۔
جان کرمسرت ہوئی۔۔تب ابو بھی باہر آگئے  انھوں نے تفصیل بتائی کہ کن حالات کے تحت  تعلیمی سفر کو روکا گیا۔۔وہ پوری توجہ سے سن رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔
رشیداحمد  راحیل کو پسند کرتے تھے۔اکثر دستر خوان پر بیٹھے کھانے کے درمیان  اسکا ذکر چھیڑ دیتے اور راحیل کی خوبیوں پر تبصرہ بھی کرنے لگتے۔عائشہ بیگم نے ایک دن پوچھ لیا۔
آپ جب  راحیل کی اتنی تعریف کرتے ہیں تو پھر ہماری منزہ کے تعلق سے سوچیں۔۔۔۔وہ شاید ہماری منزہ کو خوش رکھے گا
منزہ کے چہرے کی رنگت زرد مائل ہونے لگی۔۔۔۔والدین ان دنوں اس کے رشتے کے تعلق سے کافی فکرمند تھے لیکن اس طرح اچانک راحیل کے تعلق سے بات ہوگی یہ منزہ نے سوچا نہیں تھا
وہ عمر میں شاید منزہ سے کچھ بڑا ہے۔رشید احمد تشویش سے بولے۔منزہ کو یہ انکشاف اداس کرگیا۔
تو کیا فرق پڑیگا۔۔۔۔اونچے اخلاق وکردار کا بندہ ہے ایسے لڑکے مشکل سے ملتے ہیں۔
ایک اور وجہ جو  راحیل سے رشتہ نہیں ہوسکتا۔ابو نے جیسے دوبارہ رکاوٹ بنی پتھر کی جانب تشویش ظاہر کی۔ 
یہ سن کر منزہ کے دل کی دھڑکن تھمنے لگی۔سارا وجود ہمہ تن گوش تھا۔ابو کہہ رہے تھے۔راحیل کی منگنی ہوگئی ہے !!!
یہ سن کرعائشہ بیگم کا چہرہ بجھ گیا جبکہ منزہ کے حلق میں لقمہ پھنس گیا۔وہ بے اختیار کھانسنے لگی۔رشید احمد نے بیٹی کو معنی خیز نگاہوں سے دیکھا۔منزہ دستر خوان سے اٹھ گئی۔
۔۔۔۔۔
دن عجیب کسلمندی کی حالات میں گزر رہے تھے۔۔۔۔ حالات کچھ بہترہوئے تومنزہ نے بی کام میں ایڈمیشن لیا۔جس سے اس کی مصروفیات خوشگوار ہوگئیں۔۔۔مشکل سے تین ماہ گزرے ہوں گے کہ زندگی نے ایک  نئے موڑ کی جانب قدم بڑھائے۔
وہ ایک تپتی دوپہر تھی۔۔۔رشید احمد دھوپ اور گرمی سے نڈھال تخت پر آنکھیں موندے لیٹے تھے۔۔۔۔منزہ عامر کو فرش کروا کر اسے کپڑے پہنا رہی تھی۔تب ہی ابو کے فون کی گھنٹی بج اٹھی تو منزہ نے فوراًاٹھ کر ٹیبل سے فون اٹھایا نام دیکھ کر وہ ایک  سیکنڈ کو ٹھٹک گئی۔پھر سر کو خفیف جھٹکا دیتی ہوئی فون کو ابو کی جانب بڑھا دیا۔
ابو،  راحیل کا فون ہے
اچھا۔۔۔۔ابو اٹھ گئے۔
منزہ دوبارہ عامر کے قریب آئی اور اس کے بال بنانے لگی۔لیکن کان ابو کی طرف ہمہ تن گوش تھے۔
السلام علیکم!
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ۔رشید احمدنے خوشدلی سے جواب دیا۔
انکل آج میں بہت خوش ہوں۔
یہ سن کرمجھے اچھا لگا۔۔۔خوش رہو۔
انکل اسوقت میرے پاس2 نیوز ہیں جو آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔۔۔ایک بہت اچھی ہے دوسری بری !! 
اب آپ بتائیں پہلے کونسی سناؤں۔؟
اچھی والی سناؤ۔۔۔۔تاکہ اس کے اثر تلے بری خبر کا تاثر ختم ہو۔رشید احمد نے ہنس کر جواب دیا
اچھی خبر یہ کہ الحمدللہ میرا ویزا آگیا۔۔۔۔۔میں بہت جلد امریکہ جارہا ہوں !!
ارے واہ عمدہ خبر سنائی ، مبارک !!!رشید احمد خوشی سے بولے تو منزہ عامر کے چہرے کو اپنے چہرے سے لگاتی ہوئی ابو کی جانب دیکھتی رہی۔اسے اندازہ ہورہا تھا کہ  راحیل اپنی کوئی خوشی ابو سے شئیر کررہے ہیں۔
اب بری خبر بھی سنا دو برخوردار !
منزہ کا ماتھا ٹھنکا۔
انکل میری منگنی ٹوٹ گئی !!!! راحیل کے لہجے میں جو خوشی تھی اسے محسوس کرکے رشید احمد ہنس دیئے
تم اسے بری خبر کہہ رہے ہو۔۔۔۔جبکہ تمھارے لہجے میں بے پناہ خوشی چھلک رہی ہے۔
انکل۔۔۔۔اللہ تعالی کی کسی مصلحت کے تحت ہی یہ رشتہ ٹوٹا ہے۔ ان شاء اللہ، وہ میرے حق میں کوئی بہتر فیصلہ فرمائیگا 
ہاں۔۔۔غم نہ کرو۔۔۔ان شاء اللہ بہترین اور عمدہ لڑکی سے شادی ہوگی۔ ویسے وہاں امریکہ جاکرکسی گوری میم سے شادی کرلینا !!!
منزہ کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔۔۔۔وہ بات کی گہرائی تک پہنچ گئی تھی۔
ابو  فون رکھ کر مسکرادیئے تو منزہ سوالیہ نظروں سے ابو کو دیکھنے لگی۔پھر رشید احمد نے تفصیل بتائی تو منزہ کو ایک اطمینان بخش احساس ہوا یہ کس لئے وہ سمجھ نا سکی بس وہاں سے اٹھ کر کچن میں آگئی۔۔۔۔دل چاہ رہا تھا کوئی اچھی سی ڈش تیار کرے۔۔۔ طبعیت خاص طور سے  میٹھے کی جانب  مائل ہورہی تھی !!!
( جاری ہے)
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: