کتنی ناشکری ہوں ذرا سی تکلیف نے مجھے توڑ کر رکھ دیا....
ا تنی کمزور کیوں بن گئی کہ ساری نعمتوں کو بھول کر صرف ایک زحمت پر ساری ہمت ہار بیٹھی، وہ دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ رہی تھی
مسز زاہدہ قمر ۔ جدہ
عالم آرا متورم آنکھو ں سے گھر میں داخل ہوئیں تو راحیلہ کا دل دھک سے رہ گیا۔
کیا ہوا امی!! کیا بات ہے؟؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟؟ وہ گھبرا کر آگے بڑھی
ہاں بیٹے !! سب ٹھیک ہے۔ انہوں نے بہت ہارے ہوئے انداز میں خودکو صوفے پر گرالیا۔ ماتھے پر پسینہ چمک رہا تھا اور انکا چہرہ اتنا زرد ہورہا تھا کہ راحیلہ گھبرا کر ان کے ہاتھ سہلانے لگی۔ اس نے بے اختیار بیٹیوں کو آواز یں دیں۔
غزالہ، کشمالہ، انیلہ جلدی آﺅ.... دیکھو امی کو کیا ہوگیا ہے؟؟ اسکی آواز میں اتنی پریشانی تھی کہ چاروں دوڑ کر آگئیں۔
کیا ہوا باجی ؟؟ امی بتائیے کیا ہوا؟؟ آپ کہاں گئی تھیں؟؟ وہ ماں کے ہاتھ پاﺅں سہلا رہی تھیں۔ انہیں جلدی جلدی جوس پلانے کی کوشش کررہی تھیں۔ عالم آرا کا دل دکھ سے پھٹنے لگا۔ سارا غبار وہ ساری بھڑاس جو اب تک انہوں نے بڑے ضبط سے دل میں چھپا رکھی تھی باہر نکلنے کو بے تاب ہوگئی۔ وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں۔ اتنی بے بسی اور بے کسی کے آنسو تھے کہ ان کی بیٹیاں بھی اشک بار ہوگئیں۔ راحیلہ انکے آنسو پونچھ رہی تھی خود اسکی آنکھوں سے بھی برسات جاری تھی۔ غزالہ نے اس کا سر اپنے کندھے پر رکھ لیا اور تھپکنے لگی! انیلا انہیں تسلی دے رہی تھی اور کشمالہ مسلسل آیات قرآنی پڑھ کر دم کررہی تھی۔ سچ ہے بیٹیاں بھی کیسی پیاری ہوتی ہیں۔ دیکھنے میں تتلیوں کی طرح نرم و نازک مگر ماں باپ کا مضبوط سہارا، پورا وجود محبت کے رنگوں سے سجا خدمتوں کی روشنی سے معمور .....عالم آرا ء نے اپنی خوش بختی کو پوری شدت سے محسوس کیا تو جیسے جلتے دل پر صبر کی پھواڑیں پڑنے لگیں۔ ذہن کا بوجھ روئی کے گالوں کی طرح ہلکا ہوگیا۔ انہوں نے بے اختیار اپنے گھر کی رحمتوں کو بازوﺅں میں سمیٹ لیا۔ ان کے آنسو خود بخود خشک ہونے لگے۔
کیا مجھ سا خوش بخت کوئی ہوگا؟؟ یہ نیک اور پاکباز بیٹیاں! مہربان اور پر خلوص شوہر، مضبوط ستون جیسے بیٹے صارف ، شارق اور مشرف؟؟ ہاں؟؟ مشرف بھی بہت جلد پلٹ آئیگا۔ یہ پریشانی وقتی آزمائش ہے۔ .... میں کتنی ناشکری ہوں ۔ ذرا سی تکلیف نے مجھے توڑ کر رکھ دیا۔ اللہ مجھے معاف کردے۔ میں ا تنی کمزور کیوں بن گئی کہ ساری نعمتوں کو بھول کر صرف ایک زحمت پر ساری ہمت ہار بیٹھی۔ وہ دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ رہی تھی۔ عہد کررہی تھیں کہ آئندہ ایسی غلطی کا اعادہ نہیں کریں گی۔
بس بیٹا!! بس بچوں!! انہوں نے بڑی محبت سے اپنی بیٹیوں کو روکا۔
امی!! کیا ہوا تھا؟؟ اب کیسی طبیعت ہے؟؟ کیا محسوس کررہی ہو؟؟ کشمالہ نے پوچھا۔
انہوں نے مسکرا کر سر ہلایا، ٹھیک ہوں!! بس اب پاﺅں مت دباﺅ..... وہ بڑی نرمی سے بولیں۔
امی آپ تو نازو کے گھر گئی تھیں۔ وہاں کیا ہوا؟ کسی نے کچھ کہہ دیا کیا؟؟ اس نے پوچھا حالانکہ اس کی بہنوں نے آنکھوں میں اشارے سے منع بھی کیا تھا۔ مگر وہ روانی میں پوچھ بیٹھیں اور خود ہی شرمندہ ہوگئی۔ عالم آراءنے اس کو دیکھا اور پھر اس کی دوسری پر نگاہ ڈال کر ایک گہری سانس لی اور بلا کم و کاست پوری روداد کہہ ڈالی۔ وہ کہتے ہیں اپنے بیٹے کو روکو ۔ انہوں نے دکھ سے بتایا۔
کتنے بدکردار لوگ ہیں۔ بھائی جان کو بہکا کر ہم سے روکنے کو کہہ رہے ہیں۔ غزالہ نے دانت پیس کر کہا۔
بیٹے!! یہ لوگ ایسے ہی کہتے ہیں۔ یہ انکا خاص جملہ ہے۔ ان لوگوں میں انسانیت نہیں ہے۔
(باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭