برادریوں کے ووٹ تقسیم کرنے کا کھیل
ظفر قطب ، لکھنؤ
فتح اور جیت کا نشہ بڑے بڑے لوگوں کو گمراہ کردیتا ہے ، کچھ ایسا ہی حال ہندوستان میں دائیں بازو کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا ہوا جس نے اقتدار میں آتے ہی ایسے پینترے بدلے کہ اس سے عوام تو پریشان ہوئے ہی خوداس پارٹی کے بڑے لیڈر اور سیاست داں بد ظن ہوگئے ۔ جس طرح سے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپوزیشن کو بہت کچھ کہنے کاموقع دے دیا تو وہیں بی جے پی کی معاون سیاسی جماعتوں نے اس سے پریشان ہوکر الگ راہ اپنانے کا من بنا لیا۔ الیکشن 2014میں پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی کو زبردست اکثریت ملی کہ وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور اس کے لیڈربشمول وزیر اعظم نریندر مودی کے ایسے جملے اور دعوے عوام کے سامنے پیش کرنے لگے جس سے ملک کا معمولی پڑھا لکھا انسان بھی سمجھ گیا کہ یہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی نا سمجھی کی زندہ مثال ہے۔ وزیر اعظم کی بھی نا تجربہ کاری کھل کر سامنے آنے لگی اور انہوں نے جو وعدے کر ڈالے آج تک کوئی بھی پورا نہیں کرسکے۔ سب سے زیادہ پریشانی تو بی جے پی کے ان لیڈروں کو ہوئی جو یہ سوچ کر بیٹھے تھے کہ دلی کی سلطنت ہاتھ آتے ہی وہ کچھ نیا کرکے دکھائیں گے ۔ پارٹی کے چند لوگوں نے اقتدارپراس طرح قبضہ کیا کہ وہ یہ بھول گئے کہ اس جماعت کو اقتدار میں پہنچانے کاکام وزیر اعظم مودی اور ان کے حواریوں نے نہیں کیا بلکہ گزشتہ 60 برسوں سے رات دن مسلسل جد وجہد کرنے والے پارٹی کے لیڈروں نے قربانیاں دے کر کیا ہے۔مرکز میں اقتدار سنبھالتے ہی مودی اور ان کے چند ساتھیوں نے مل کر پارٹی کے تجربہ کار اور وفادار لیڈروں کو نچوڑاور مروڑکرایک کنارے پھینک دیا۔ پارلیمنٹ میں ان لیڈروں کی موجودگی کے باوجود بھی انہیں اس طرح نظر انداز کر دیا گیا گویا کہ ان کا وجود ہی ختم ہوچکا ہے۔ گزشتہ 5برسوں میں جب بی جے پی قیادت بے ر وزگار نوجوانوں ، کسانوں ، عورتوں ، دلتوں اور اقلیتوں کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکی تو انہیں تشویش لاحق ہوئی کہ آئندہ وہ کس منہ سے عوام کے سامنے ووٹ مانگنے جائیں گے اس کا احساس سب سے پہلے بی جے پی کی ان معاون جماعتوں کو ہوا جن کے سہارے مرکزی حکومت اقتدار کے مزے لوٹ رہی تھی لیکن معاونین کے حصے میں صرف محرومیاں آرہی تھیں۔ وہ اپنی برادریوں کو کوئی جواب نہیں دے پارہی تھیں کہ اب تک انہوں نے ان کی فلاح وبہبود کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سب سے پہلے اترپردیش میں بی جے پی قیادت کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں۔ اس کی چھوٹی چھوٹی معاون پارٹیاں بغاوت پر آمادہ ہوگئیں ۔ اس کی وجہ تھی اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی، وزیر اعظم مودی کی اندھی تقلید۔جو کچھ مودی کہتے جاتے تھے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر یو گی اسے اپنا لیتے اور بلا مبالغہ وہ مودی کی خوشامد میں بہت دور جانے لگے۔ وہ مودی کی طرح اپنے مددگاروں کو ان سے کہیں زیادہ نظر انداز کرنے لگے۔ دلتوں اور اقلیتوں کے خلاف حکومت کا رویہ اتنا خراب تھا کہ سب سے پہلے اس کو موضوع بناکر یوگی کے کابینی وزیر اوم پرکاش راج بھر نے ان کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ پارلیمانی الیکشن قریب آتے ہی انہوں نے علیحدہ الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا۔ بی جے پی کے اس رویے سے پریشان ہوکر سابق مرکزی وزیر اور بہار کے بڑے سیاست داں اوپیندرکشواہا جیسے لیڈر نے مودی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد اتر پردیش میں پسماندہ اقوام دلتوں اور اقلیتوں کا ایک محاذ قائم ہوا جس میں سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی نے اپنا ایک مضبوط محاذ قائم کرلیا۔اس سے بی جے پی کی صفوں میں زبردست زلزلہ آگیا اور ان کے ذہن میں یہ بات گھر کر گئی کہ آئندہ الیکشن میں نتائج بالکل الٹ جائیں گے ۔ اس کی کاٹ کیلئے آر ایس ایس اور بی جے پی جیسی دائیں بازو کی کئی سیاسی جماعتوں نے مل بیٹھ کر غور کیا تو سیکولر ووٹوں کو تقسیم کرنے کے لیے کچھ لیڈر وں کی منہ بھرائی شروع کر دی ۔ جس طرح یوپی میں شیوپال یادو جیسے لیڈروں کی حکمراں جماعت نے خاطر داری شروع کردی اسے لکھنؤ میں دفتر دے کر یہ پیغام دے دیا کہ سیکولر ووٹ اور متحد ہ محاذ کے لوگ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ ہمیں الیکشن میں شکست دے دیں گے بلکہ ہم ان کے ووٹ کاٹ کر برباد کردیں گے اور حکومت ہمارے ہی پاس رہے گی۔ بی جے پی کے اس رویے سے وہ چھوٹی چھوٹی جماعتیں جواس سے گزشتہ الیکشن میں منسلک ہوئی تھیں انہوںنے بھی غور کرنا شروع کیا کہ ہمیں بھی بی جے پی نے نچوڑ کر ایک کنارے پھینک دیا ہے۔ اس سلسلے میں یوپی کی کرمی برادری پر مشتمل سیاسی جماعت اپنا دل نے بھی بغاوت کی آواز بلند کردی اور اس کی مرکزی وزیر مسز انو پریا پٹیل نے اپنی برادری کی محرومی کا کھل کر ذکر کرنا شروع کردیا نیز بی جے پی قیادت اور وزیر اعظم مودی پر نکتہ چینی کرکے دوسری سیاسی جماعتوں سے ملنا جلنا شروع کردیا اور حکمراں جماعت کو یہ پیغام دے دیا کہ آنے والے پارلیمانی الیکشن میں وہ بی جے پی کی غلام بن کر رہنے کے بجائے ان پارٹیوں سے تعلقات بناکر الیکشن لڑیںگی جہاں عزت ہو اور کرمی برادری کی بہبود کیلئے کچھ کام کیا جاسکے۔اس سلسلے میں سب سے پہلے مرکزی وزیر انوپریہ پٹیل نے کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی سے ملاقات کی۔ انوپریہ پٹیل نے بی جے پی قیادت سے سخت ناراضی کا اظہارکیا۔اس سے قبل انوپریہ پٹیل نے بی جے پی پر سخت نکتہ چینی کی تھی اورکہاتھا کہ ٹکٹ کی تقسیم کے سلسلے میں بی جے پی لیڈران این ڈی اے میں شامل اپنے معاونین کے ساتھ اچھاسلوک نہیں کررہے ہیں۔ اورانہیں گری ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔نیز ہماری برادریوں کی بہبود کے لیے آج تک کوئی بھی کام نہیں کیا۔