کلیدی عہدوں کی سعودائزیشن پہلے
سعید الفرحہ الغامدی ۔ المدینہ
انتظامی اصلاحات کا عمل ہنوز جاری ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ درست ہے کہ ابھی تک انتظامی اصلاحات نعرے بازی کی منزل میں ہے۔ اسی دوران سرکاری اور نجی اداروں میں تارکین وطن کی تعداد گھٹانے کا شور بھی برپا ہے۔ جب ہم بڑے بڑے اداروں اور کمپنیوں کے دفاتر پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ ابھی تک نجی ادارے غیر ملکیوں کو سعودی شہریوں پر ترجیح دے رہے ہیں۔ کلیدی عہدوں کی سعودائزیشن کا کوئی واضح پروگرام نہیں۔ یہی منظر نامہ سرکاری ادارو ںمیں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ سابک، آرامکو ، ایس ٹی سی، السعودیہ ، وزارت صحت، و بجلی و پانی کے دفاتر کا ایک چکر کاٹنے سے یہ بات روز روشن کی طرح سامنے آجائیگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فروغ افرادی قوت کا ادارہ تمام وزارتوں کا ہمہ جہتی مشاہدہ کرے۔ خاص طور پر وزارت محنت کے افسران کارکنان کے حوالے سے ریاستی پالیسی مرتب کریں اور قوانین کے اجراءپر اکتفا نہ کریں۔ تمام اداروں سے ضوابط کی پابندی بھی کرائیں۔
یہ درست ہے کہ انتظامی امور اور تکنیکی کاموں میں غیر ملکیوں پر انحصار کی واحد وجہ یہ تھی کہ سعودی شہری ان دونوں شعبوں میں نایا ب تھے۔ غیر ملکی ماہرین کی خدمات مجبوراً حاصل کی گئی تھی۔ اب جبکہ سعودی شہری انتظامی اموراور تکنیکی مسائل میں کمال پیدا کرنے لگے ہیں اور فروغ افرادی قوت فنڈ کی کاوشوں کی بدولت ایک اچھا خاصا عملہ مقامی شہریوں کی صورت میں تیار ہوچکا ہے تو غیر ملکیوں کی جگہ سعودیوں کی تقرری ناگزیر ہوگئی ہے۔ فروغ افرادی قوت فنڈ کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام اداروں سے اسکی پابندی کرائے۔متعدد ادارے اول فول جواز کی بنیاد پر غیر ملکیوں کو تکنیکی اور انتظامی امور میں دخیل بنائے ہوئے ہیں۔ عام طور پر یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ سعودی اس قسم کے کام مناسب طریقے سے انجام نہیں دے پاتے۔ یہ بات اس لئے ناقابل فہم ہے کیونکہ اسکالر شپ پر بیرون مملکت بھیجے جانے والے سعودی نوجوان تکنیکی اور انتظامی امور میں اعلیٰ ترین کورس کرکے وطن واپس آرہیں اور اب تک بے روزگار ہیں۔ 2عشروں کے دوران یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے۔ اب بھی غیر ملکیوں پر انحصار ہو یہ ناقابل فہم ہے۔وزارت محنت کا فرض ہے کہ وہ تمام وزارتوں، سرکاری اداروں میں ایسی تمام اسامیوں کی ایک فہرست تیار کرے جن پر غیر ملکی ملازم تعینات ہوں۔ پھر مقررہ نظام الاوقات کے مطابق انکی جگہ سعودیوں کی تقرری کو یقینی بنایا جائے۔ اسی کے ساتھ سعودیوں کیلئے تربیتی پروگرام کا بھی اہتمام ہو۔ متبادل اسکیم بھی تیار رکھی جائے۔ ان سب کو نظام الاوقات سے مربوط کردیا جائے تاکہ سرکاری ادارے سعودائزیشن کی مہم کے تئیں اپنی ذمہ داریوںسے غافل نہ ہوں۔ ان سب سے اہم یہ ہے کہ مینجمنٹ انسٹیٹیوٹ کے کردار کو موثر کیا جائے۔ انتظامی اصلاحات میں مطلو ب تبدیلی لانے کیلئے اسکی خدمات سے فائدہ اٹھایا جائے۔ ہر وزارت ، ہر محکمے اور ہر ادارے میں افرادی قوت کے شعبوں کا پوری طرح سے دھیان رکھا جائے۔ خاص طور پر بڑے اداروں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ان میں فضائی نقل و حمل، ایس ٹی سی، بجلی اور پانی کے شعبے قابل ذکر ہیں۔ کاش کہ اس عمل کی شروعات جامع فیلڈ سروے سے کی جائے۔ ہر ادارے ، ہر وزارت او ر ہر محکمے میں موجود غیر ملکیوں کی فہرست تیار کی جائے۔ یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ وہ کیا کچھ کررہے ہیں اور انکی جگہ سعودیوں کی تقرری کیلئے کیا کچھ کرنا ہے تاہم اگر وزارت محنت صرف فیصلے جاری کرنے پر اکتفا کرتی رہی تو ریاستی اداروں کے کلیدی عہدوں کی سعودائزیشن نہیں ہوسکے گی۔ آرامکو، سابک ، بجلی کمپنی، السعودیہ ، ایس ٹی سی، وزارت صحت، مالیاتی منڈی اور بینکوں پر غیر ملکی ہی راج کرتے رہےں گے۔ سعودی وژن 2030کو روبعمل لانے کیلئے سعودائزیشن ناگزیر ہے۔ فی الوقت انتظامی حالات یہ بتا رہے ہیں کہ ہم لوگ سعودی لڑکوں اور لڑکیوںکے روزگار کے حوالے سے وژن 2030کے اہداف حاصل نہیں کرسکیں گے۔ یہ سب کچھ اس کے باوجود ہورہا ہے جبکہ ریاست نے اندرون و بیرون ملک وژن 2030کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سعودی لڑکوں اور لڑکیوں پر اربوں ریال خرچ کردیئے ہیں۔ ان نوجوانوں کو مایوس کرنے سے مطلوبہ مقاصد پورے نہیں ہونگے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭