Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچھڑنا بھی ضروری ہے: نازو نے کہا ”کردی ناں تم نے دقیانوسی مردوں والی بات“

اب وہ نازو کے گھر کا فرد بن چکا تھا اور نازو کی ماں نے اسے یقین دلایا تھا کہ وہ بہت جلد نازو سے اسکی شادی کردے گی، وہ از حد خوش تھا 
مسز زاہدہ قمر ۔ جدہ
وہ بہت اضطراری کیفیت میں گھر آیا تھا۔عجیب سے احساسات تھے۔ غصہ، دکھ اور شرمندگی سب گڈمڈ ہوگئے تھے۔آخر ان سب نے مجھے کیا سمجھ رکھا ہے؟ کیا میں قربانی کا بکرا ہوں؟ میرے کوئی جذبات، احساسات، پسند ناپسند کچھ نہیں؟ اور نرمین؟ یہ لوگ کب تک اس معصوم کو ذہنی اذیت سے دوچار کرتے رہیں گے۔اسے گائے کی طرح کھونٹے بدل بدل کر باندھیں گے؟ وہ نرمین کو تسلی دے کر گھر روانہ ہوا۔ اس نے نرمین سے وعدہ کیا تھا کہ اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہونے دے گا۔ اس کی رائے کا پورا احترام کیا جائیگا، وہ فکر نہ کرے۔
جواب میں نرمین نے بہت پرسکون ہوکر بڑے تشکر آمیز لہجے میں اس پراعتماد کا بھرپور اظہار کیا تھا۔تھینکس صارف بھائی! مجھے یقین ہے کہ آپ ضرورمیرا خیال کریں گے۔ میں تو آپ کو بتا کر ہی شیور ہوں کہ اب سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میں دراصل ابھی بہت زیادہ ڈسٹرب ہوں ۔میں مینٹلی ریلیکس ہونا چاہتی ہوں۔ دراصل میں کچھ ٹائم لینا چاہتی ہوں، سوچنے کیلئے۔ آپ سمجھ رہے ہیں ناں؟ وہ بہت معصومیت سے پوچھ رہی تھی اور صارف صرف اسے دیکھ رہا تھا۔ نرمین نے سوالیہ نظروں سے صارف کو دیکھا تو اس کی بے خودی پر متعجب ہوگئی۔ عجیب کھویا کھویا انداز تھا۔
صارف بھائی! صارف بھائی،اس نے زور سے آوازدی تو وہ بری طرح چونک گیا۔ 
ہاں ہاں!ٹھیک ہے، ٹیک یور ٹائم! مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میں گھر والوں سے بھی آج ہی بات کرونگا۔ تم فکر مت کرو۔ وہ بری طرح بوکھلا گیا۔ اپنی چوری پکڑے جانے پر تو نرمین کو تسلی دینے لگا۔ پھر اس نے بہت عزت و احترام سے نرمین کو گھر ڈراپ کیا۔ سارے راستے وہ خیالات کے ہجوم میں گھرا رہا۔ اب گھر آیا تو سوچیں بہت ڈسٹرب تھیں۔ اس کا خیال تھا کہ سب سے پہلے امی سے بات کرونگا مگر لاﺅنج میںداخل ہوتے ہی اس کے قدم رک گئے۔
عالم آرا اور یوسف صاحب کھکھلا کر ہنس رہے تھے۔ سامنے ہی عارف صاحب چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑے جانے کونسی کہانی سنا رہے تھے کہ خود بھی اس ہنسی میں شریک تھے۔ شارق، بہنوں کے ساتھ کار پیٹ پر بیٹھا تھا اور میز پر چائے کے لوازمات رکھے تھے۔ اسے دیکھ کر سب چونک گئے۔ 
آﺅ، آﺅ بیٹا!عالم آرا نے بہت محبت سے اسے پکارا ۔وہ آگے بڑھا اور سب کو سلام کیا۔ جواب تو اسے سب نے مشترکہ طور پر دے ہی دیا مگر سب سے حیران کن بات یہ ہوئی کہ بڑے ابو (عارف صاحب) نے اسے کھڑے ہوکر گلے لگالیا۔ وہ ششدر تھاکیونکہ اس سے پہلے انہوں نے کبھی ایسی گرمجوشی نہیں دکھائی تھی۔ انہوں نے اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ بڑی محبت سے اس کی پیشانی کو بوسہ دیا اور جلدی سے ہاتھ پکڑ کر اپنے قریب بٹھا لیا۔ صارف نے ماں باپ کی سمت نظر کی تو دونوں ہی اطمینان اور خوشی سے لبریز مسکراہٹ لبوں پر سجائے بیٹھے تھے۔وہ تھوڑی دیر بیٹھا رہا پھر چینج کرنے کا بہانہ کرکے اٹھ گیا۔
ہاں بالکل ! تم فریش ہوجاﺅ، پھر یہیں آکر ہمارے ساتھ چائے پینا۔ اس نے اجازت تو عالم آرا سے لی تھی اپنے کمرے میں جانے کی مگر اسے جواب بڑے ابو کی طرف سے ملا۔وہ سر ہلا کر کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ اب تو یہ طے تھا کہ اسے ان کے ساتھ چائے پینی تھی یعنی وہ جو ان کے درمیان سے بھاگنے کی فکر میں تھا۔ یہ منصوبہ خاک میں مل گیا لہٰذا اس نے شرافت سے اچھے بچوں کی طرح منہ ہاتھ دھو کر لباس تبدیل کیا اور پھر لاﺅنج میں آگیا جہاں بڑے ابو ایک نئے انداز میں اس کے ہی گھر میں” اس کی چائے پر“ اس کی خاطر داری کررہے تھے۔
لو یہ لو بیٹا! یہ سموسے کھاﺅ، اور یہ چاٹ بھی ضرور ٹرائی کرنا۔ ارے ہاں! پڈنگ بڑی زبردست بنی ہے۔ تھوڑی سی لیکر دیکھو۔ وہ اسے ایک وی آئی پی مہمان کی طرح ٹریٹ کررہے تھے۔اس نے سٹپٹا کر والدین کو دیکھا تو دونوں ایسے مسرور دکھائی دیئے گویا ہفت اقلیم ہاتھ آگئی ہو۔ کارپٹ پر بیٹھے چھوٹے بھائی بہن شرارت سے مسکرا رہے تھے۔ کس قدر مکمل اور خوبصورت منظر ہے۔ صارف کی روح آپ ہی آپ پرسکون ہوگئی۔
آج بہت دنوں کے بعد اس کے قدم خود بخود مکینک کی طرف اٹھ گئے۔ وہ کئی دنوں سے چھٹی پر تھا۔ آج نازو دن کے وقت تک رات کے فنکشن سے نہیں لوٹی تھی۔وہ گھر پر بور ہوگیالہٰذا ایک کاغذ پر پیغام لکھ کر آگیا۔ گھر کی ایک چابی اس کے پاس بھی تھی ۔اب وہ نازو کے گھر کا فرد بن چکا تھا اور نازو کی ماں نے اسے یقین دلایا تھا کہ وہ بہت جلد نازو سے اسکی شادی کردے گی۔ وہ از حد خوش تھا۔ نازو کے بغیر ایک پل بھی گزارنا اسے قبول نہیں تھا۔ اس نے نازو سے کہا تھا کہ” شادی کے بعد میں تمہیں اتنی دیر تک گھر سے باہر نہیں رہنے دونگا“۔ اور اس کے اتنے پیار سے کہے گئے الفاظ نے جیسے انگاروں کا کام کیا۔ نازو کو آگ لگ گئی۔ 
”واہ! کردی ناں تم نے تنگ ذہنیت والے دقیانوسی مردوں والی بات۔ آج کہہ رہے ہو کہ دیر تک باہر نہیں رہنے دونگا۔ کل کہو گے کہ گانے بجانے کی اجازت نہیں دونگا۔ بڑی گھٹیا سوچ ہے تمہاری“۔نازو نے انتہائی بدتمیزی سے اس کی کلاس لی۔
ارے ! تم خوامخواہ ناراض ہوگئیں۔میں تو تمہارے آرام کے خیال سے کہہ رہا تھا اور اگر میں تمہیں کام کرنے سے منع بھی کروں تو اس میں کیا برائی ہے۔ بھئی دیکھو ناں! تمہیںاتنا تھکنے کی کیا ضرورت ہے۔ گھر پر آرام سے رہو، رانی بن کر۔ وہ بیحد نرمی اور آرام سے نازو کو سمجھا رہا تھا۔ 
******** 

شیئر: