ایران ، عراق کو دوسرا لبنان بنانے کے درپے
عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
برسر اقتدار آنے کے بعد 6برس میں پہلی بار ایرانی صدر حسن روحانی عراق کے دورے پر بغداد پہنچ گئے۔ یہ ایران کے حکمرانوں کی جانب سے عراقیوں پر زبردست دباﺅکے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ دراصل ایران کے حکمراں امریکہ کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں سے بچاﺅ کیلئے عراق سے فائدہ اٹھانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔
عراق، ایران کیلئے نجات کا پل نہیں بن سکتا۔ یہ بڑا ملک ہے۔ اسکا جغرافیائی رقبہ وسیع و عریض ہے۔ یہ اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ مذہب پسند ملک ہے۔ سعودی عرب اور ایران سمیت خطے کے ممالک کیساتھ تعلقات استوار کئے ہوئے ہے۔ عراق علاقائی اور بین الاقوامی سیاسی کشمکش کے دائرے میں گھرا ہوا ہے۔ عراق اس دائرے کے ٹھیک وسط میں آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دباﺅ اور دھمکیوں کے ماحول میں ہمیں اس بات کیلئے پریشان ہونا قابل فہم ہوگا کہ عراق ایران کا دم چھلہ بن جائیگا۔
ایران، صدام حسین کے سقوط کے بعد عراق میں قدم جمانے میں کامیاب ہوگیا۔ ایران نے سنی شیعہ مسلح گروپوں کی مدد سے امریکہ کو عراق میں کونے سے لگادیا۔
ایران ، عراق کو لبنان کی طرح اپنا دم چھلہ بنانے کے درپے ہے۔ ایران چاہتا ہے کہ وہ دنیا بھر میں نیابتی جنگ کیلئے جنگجو عراق سے حاصل کرتا رہے۔ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی کمان میں یہی سب کچھ شام میں کررہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ عراق ایران کا مالیاتی محفوظ خانہ بن جائے۔ ایران کی جانب سے لبنانی حزب اللہ اور شامی حکومت کو اربوں ڈالر فراہم کرتا رہے۔ ایران چاہتا ہے کہ عراق کمزور اقتدار والی ریاست بنا رہے۔ طاقتور نہ ہو۔ لبنان کی طرح اسکا مرہون منت بن جائے۔ ”عصائب الحق اور اس جیسی دیگر عراقی ملیشیاﺅں کے ذریعے عراق پر اس کا اقتدار چلتا رہے۔
عراق بڑا ملک ہے۔ اسکے اپنے مفادات ہیں۔ اسکی اپنی آرزوئیں ہیں۔اور یہ سب کچھ تہران کے انتہا پسند مذہبی نظام کے مفادات اور افکار سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ایران کی ناکہ بندی ہوچکی ہے۔ عراق پوری دنیا کیلئے کھلا ہوا ہے اور 1990ءکے بعد سے پہلی بار اسکے حالات اور تعلقات ہر دو بہت بہتر ہیں۔ عراق ترقیاتی دور میں داخل ہوچکا ہے۔ سلسلہ برقرار رکھنے پر خطے کا مالدار ترین ملک بن سکتا ہے۔ وہ خود مختار آزاد ریاست کا کردارادا کرنے کی پوزیشن میں آجائیگا۔ کسی ملک کے خادم کی حیثیت سے بالا تر ہوگا۔ عراقی وزیراعظم ہادی عبدالمہدی عراقی عوام کو ہم سے کہیں زیادہ جانتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ ان کے پاس کتنے آپشن ہیں۔ انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ اگر انکے ایرانی مہمان روحانی نے ان سے یہ کہا کہ ”ہم نے مشکل دنوں میں عراقی عوام کا ساتھ دیا “۔ اور وہ اس تناظر میںعبدالمہدی سے اپنے ملک کے بعض مفادات سے دستبرداری کے خواہاں ہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ اس بات کا عراقی وزیراعظم ،روحانی کو کیا جواب دینگے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران محصور ریاست کے طور پر زندگی گزارنے پر مجبور نہیں۔ اگر ایران ایٹمی منصوبے سے دستبردارہوجائے۔ اگر ایران بیرونی ممالک میں عسکری مداخلت ، انارکی برآمد کرنے اور انقلابات متحرک کرنے سے باز آجائے تو ایسی صور ت میں سارے معاملات معمول پر آسکتے ہیں۔ تو پھرعراقی، ایران کی انتہا پسندانہ سیاست کا خمیازہ کیوں بھگتیں؟
یہ درست ہے کہ ایران ماضی کے کسی بھی دور کے مقابلے میں آج زیادہ محصور ہے۔ ایرانی آئل ٹینکر بحر الکاہل کے وسط میں بیکار کھڑے ہوئے ہیں لنگر انداز ہیں۔ وہ قالین، میوہ جات اور سبزیوں سے سودے پر مجبور اور ڈالر استعمال کرنے سے محروم ہیں۔ ایران سے چین او رروس تک دستبردار ہوگئے ہیں جبکہ ایرانی امریکیوں کے ساتھ اپنی لڑائی کے دوران ان پر انحصار کئے ہوئے تھے۔ روس اور چین نے ایران کے ساتھ تجارتی لین دین بند کردیا ہے۔ ایران یہ معرکے جاری رکھنے پر مجبور نہیں۔ ایران کے حکمرانوں نے یہ راستہ از خود اختیار کررکھا ہے لہذا اپنے کئے کا خمیازہ بھی انہی کو بھگتنا ہوگا۔ ان سے پہلے صدام حسین اپنے اس فیصلے کا خمیازہ بھگت چکے ہیں جو انہوں نے عالمی برادری سے لڑائی کی صورت میں کیا تھا۔ روحانی،ظریف، سلیمانی اور ایران کے تمام اعلیٰ عہدیدار عراق کے دورے کرکے یہی کوشش کرتے رہے ہیں کہ بغداد انکے ماتحت ہوجائے۔ عراقیو ںکے سامنے لبنان کا سبق ہے اور وہ عراق کو دوبارہ تباہی کے حوالے نہیں کرینگے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭