Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرائسٹ چرچ: ”اسلامو فوبیا‘ ‘کا سب سے بڑا حملہ

احمدنور 
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے کرائسٹ چرچ میں2مساجد پر ہونے والے حملوں کے بارے میں کہا ہے کہ یہ”دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں“ ہے جبکہ آسٹریلین وزیر اعظم نے تصدیق کی ہے کہ حملہ آور کا تعلق آسٹریلیا سے ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں میں مسلمانوں کی کسی عبادت گاہ پر یہ سب سے بڑا حملہ ہے جس ”اسلاموفوبیا‘ ‘سے منسلک کیا جا رہا ہے۔ 
نائن الیون کے بعد مغرب میں مسلمانوں سے نفرت کی بنا پر کیا گیا یہ پہلا حملہ نہیں ہے ، لیکن ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی مقامی باشندے کی جانب سے مسلمانوں پر کیے گئے حملے کو اعلیٰ سطح پر دہشت گرد حملہ قرار دیا گیا ہو۔
گزشتہ 18 برس میں مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں پر ہونے والے حملوں کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
17اگست2018 ءکو برطانیہ کے شہر برمنگھم میں دو مساجد پر 20 منٹ کی وقفے سے ایک بڑی غلیل میں لوہے کے بال بینگ ڈال کرحملہ کیا گیا ۔ تاہم اس حملے میں کوئی شخص ہلاک یا زخمی نہیں ہوا تھا۔
29جنوری 2017 ء کو کیوبک میں مسجد پر ایک فرانسیسی کینیڈین الیگزینڈر بیسو نیت نامی نوجوان نے حملہ کرکے چھ افراد کو قتل کر دیا تھا جبکہ 8 افراد بری طرح زخمی ہوئے تھے۔کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے حملے کو دہشت گردی قرار دے کر اس پر غم و غصے کا اظہار کیا تھا اور واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی۔
2 جولائی 2017 ءکو فرانس کے جنوب مشرقی شہر آوینیو میں مسلح افراد نے ایک مسجد پر فائرنگ جس سے ایک لڑکی سمیت آٹھ افراد زخمی ہوئے۔
30 جون 2017ءکو پیرس میںایک آرمینیائی نژاد باشندے نے مسلمانوں پر کار چڑھانے کی کوشش کی جسے پولیس نے ناکام بنا دیا۔
19 جون2017 ءکو برطانیہ کے دارلحکومت لندن میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب رکھنے والے ڈیرن اوسبورن نماز پڑھ کر باہر آنے والے افرادکے اوپر گاڑی چڑھا دی تھی جس کے نتیجے میں ایک مکرم علی نامی شخص ہلاک ہوگیا تھا اور 8 افراد زخمی ہوئے تھے۔
25 جون2017 ءکو برطانیہ میں ایک خاتون نے عید کے اجتماع پر گاڑی چڑھا دی جس میں 3 بچوں سمیت 6 افراد زخمی ہو گئے تھے۔
19 دسمبر2016 ءکو ایک24 سالہ سوئس باشندے نے زیورچ اسلامک سینٹر میں فائرنگ کر کے تین افراد کو زخمی کر دیا تھا جس نے بعد میں خود کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق امریکہ میں 2001 ءسے لے کر 2017 ءتک مسلمانوں پر کم از کم 46 حملے کئے گئے جن میں 13 افراد ہلاک ہوئے جبکہ 25 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
اس حوالے سے بین الااقوامی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نائن الیون کے بعد دنیا بھر میں تعصب کی بنیاد پر دنیا بھر میں مسلمانوں پر حملے کئے گئے اور یہ حملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
ان کے مطابق نیوزی لینڈ کی جانب سے مساجد پر ہونے والے حملے کو اس لیے دہشت گردی قرار دیاجا رہا ہے کیونکہ وہاں اس سے قبل کسی عبادت گاہ پر اس طرح کا حملہ نہیں ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حملے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جب کسی مغربی ملک میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے تو وہ اس ملک کے قوانین اور رہن سہن کو قبول کرنے کے بجائے اپنی مرضی سے رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈاکٹر مہدی کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ بے شک مغرب کا کلچر نہ اپنائیں، لیکن وہاں امن کے ساتھ رہنے کےلئے ضروری ہے کہ وہ اس معاشرے پر تنقید نہ کریں۔
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: