جنتیوں کے دل ، بغض ، حسد اور کینہ سے پاک
دلوں کو حسد بغض اور کینہ سے پاک رکھنا چاہیے، دل کی طہارت اور پاکیزگی ہی دراصل اعمال کی طہارت اور پاکیزگی کا ذریعہ ہے
محمد کبیر بٹ ۔ریاض
آخرت پر ایمان دین اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مرنے کے بعد ایک دن قیامت قائم ہوگی۔ اللہ تعالیٰ تمام مُردوں کو زندہ کریں گے، ان سے پوری زندگی کا حساب لیا جائے گااور ان کے اعمال کی روشی میں جنت اور جہنم میں سے کوئی ایک جگہ ان کا ٹھکانا قرار پائے گا۔ (کُلُّ نَفْسٍ بِمَاکَسَبَتْ رَھِیْنَۃٌ ’’ہر نفس اپنی کمائی کے بدلے رھن ہے ‘‘}المدثر{38)۔ اس کار گاہِ حیات میں ہر شخص صبح سے شام تک اپنے عمل کے ذریعے جنت بناتا ہے یا جہنم۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں ناری ہے نہ نوری
جنتیوں کی قرآن مجید اور سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بہت سی صفات بیان کی گئی ہیں۔ اس مضمون میں ان کا احاطہ ممکن نہیں ۔ یہاں ہم صرف ان کے دل کی پاکیزگی (قلب سلیم ) پر روشنی ڈالیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"جس دن مال اور اولاد کچھ کام نہ آئینگے مگر جو بے عیب پاکیزہ دل کے ساتھ رب کے حضور حاضر ہوگا ۔ "(الشعراء89,88)۔
اُس دن کی کامیابی کا دارومدار دل کی پاکیزگی اور سلامتی پر ہے۔قلب سلیم سے مراد وہ دل ہے جو شرک و بدعت ، کفرو نفاق ، بغض و حسد ، دنیا کی محبت کینہ اور غیبت، سوئِ ظن اور دل کی سختی ہر طرح کی رنجش اور قطع رحمی جیسے اخلاق رذیلہ سے پاک ہواور وہ دل توحیدوسنت کی محبت، ایمان و اسلام کے جوہر، صلہ رحمی اور خدمت خلق، سچائی اور دیانت، حسنِ اخلاق اور باہمی الفت و محبت کے جذبے سے سرشار ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"بے شک متقین باغوں اور چشموں والی جنتوں میں ہوں گے،( ان سے کہا جائے گا) امن اور سلامتی کے ساتھ اس میں داخل ہوجاؤ، ان کے دلوں میں جو بھی رنجش اور کینہ تھا، ہم سب کچھ نکال دیں گے، وہ بھائی بنے ایک دوسرے کے سامنے سریر آرا( تخت نشین) ہوں گے۔ "(الحجر47-45) ۔
جنت ایسا مقام ہے جہاں امن وسکون، طمانیت و راحت اور ہر طرف سے قیلًا سلاماً سلاما کی صدائیں آرہی ہونگی۔ جنتی رب رحیم و کریم کے مہمان ہوں گے۔ انکی آنکھوں کی ٹھنڈک ، زبان کی حلاوت اور دل کی طمانیت کا سارا سامان وہاں موجود ہوگا۔
جن اہل ایمان کے دلوں میں دیناوی معاملات کی وجہ سے کوئی رنجش یا عداوت دل میں ایک دوسرے کے خلاف تھی جنت میں داخلے سے قبل ان کے دلوں کو اس سے پاک کر کے ایک دوسرے کی محبت دلوں میں ڈال کر جنت کی اعلیٰ مسندوں پر بٹھائے جائیں گے۔ کینہ اور بغض حسد اور عداوت ایسی برائیاں ہیں جن کی وجہ سے دلوں میں کدورت پیدا ہوتی ہے اور انسان اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں خود ہی جلتا رہتا ہے۔ امام ابن قیم نے آیت مبارکہ : ان الابرار لفی نعیم وا نا الفجار لفی جھیم( " بے شک صالحین نعمتوں بھری جنت میں ہوں گے،اور یقینا بدکار لوگ دوزخ میں ہوں گے(الانفطار14,13)۔ ) کی تفسیر میں کتنی خوبصورت بات لکھی ہے:
لکھتے ہیں :
’’مومینن صالحین دراصل اس دنیا میں بھی جنت کے مقیم ہوتے ہیں، ان کے دل تمام اخلاق رذیلہ سے پاک اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ، رشتہ داروں سے صلہ رحمی ،انسانیت سے پیارومحبت، خدمت خلق اور باہمی ہمدردی اور صدق و دیانت جیسے اعلیٰ اخلاق سے معمور ہونے کی وجہ سے اس دنیا میں بھی اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کرتے ہیں جو جنت کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے جبکہ فساق و فسادی فجار: بھڑکتی آگ میں جل رہے ہوں گے جو دراصل اس دنیا میں شرک و کفر ، فسق و فجور اور بغض و کینہ ، حسد اور عداوت، جھوٹ اورخیانت جیسے برے اعمال کی وجہ سے بے اطمینانی،کڑھن اور گھٹن، بے چینی اور بیقراری کی وجہ سے اپنی ہی جلائی ہوئی آگ میں جلتے رہتے ہیںاور آخرت میں بھی جہنم کا ایندھن بنیں گے لہذا اے جنت کے متلاشی! ذر اپنے دل کا جائزہ لے کہ تُوکس دنیا میں رہتا ہے؟
سورہ الاعراف،آیت43 میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
"اور جو کچھ ان کے دلوں میں( کینہ) تھا ہم ان کے دلوں کو اس سے پاک کردیں گے( پھر ان کو جنت میں داخل کر دیں گے)، ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی"۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ ان جنتیوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف دنیاا میں اگر کوئی بغض و کینہ تھا تو ان کے دلوں کو آئینے کی طرح صاف کر دیا جائے گا اور بعض نے یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ جنت میں جنتیوں کے درمیاں جنت کے درجات کا جو فرق و تفاوت ہوگا اس پروہ ایک دوسرے سے حسد نہیں کریں گے۔
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"حدیث میں آتا ہے کہ جنتیوں کو جنت اور دوزخ کے درمیان ایک پل پر روک لیا جائے گا۔ ان کے درمیان جو آپس کی زیادتیاں ہونگی ان کا بدلہ دے دلا کر ان کے دلوں کو پاک کر دیا جائے گا پھر ان کو جنت میں داخلے کی اجازت ملے گی۔ "(صحیح بخاری )۔
حضرت علیؓ کا قول ہے:
" مجھے امید ہے میں ،طلحہ، زبیر اور عثمان( رضی اللہ عنہم) اُن لوگوں میں سے ہوں گے جن کے متعلق اللہ نے فرمایا :اور ہم ان کے دلوں سے کینہ دور کردیں گے پھر ان کو نعمتوں بھری جنت میں داخل کر دیں گے "۔
ایک دن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں صحابہؓ کی جماعت کے سا تھ تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی تمہارے سامنے ایک جنتی شخص مسجد میں داخل ہوگا صحابہ کرام ؓنے اپنی نظریں مسجد کے دروازے پر گاڑھ دیں کہ کون خوش نصیب داخل ہوتا ہے۔ ایک انصاری صحابیؓ جن کی داڑھی سے وضو کا پانی ٹپک رہا تھا اپنے جوتے ہاتھ میں پکڑے مسجد میں داخل ہوئے۔ لوگ ان کی طرف رشک کی نگاہ سے دیکھتے رہے ، دوسرے اور پھر تیسرے دن بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی ہی بات ارشاد فرمائی اور وہی انصاری صحابیؓ مسجد میں داخل ہوئے ۔حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے دل میں خیال آیا کہ دیکھتے ہیں ان کے اعمال کیسے ہیں؟ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میرا اپنے والد صاحب سے کچھ تنازعہ ہو گیا ہے جسکی وجہ سے میں آپ کے ساتھ رات بسر کرنا چاہتا ہوں۔ وہ آپ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے گئے ۔حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ وہ رات بھر لمبی تان کر سوئے رہے، تہجد کی نماز کے لئے بھی نہیں اٹھے البتہ اذانِ فجر کے ساتھ ہی مسجد کی طرف چل پڑے البتہ رات کو جب کروٹ لیتے تو اللہ کا ذکر کرتے رہتے۔ 3 راتیں ان کے ساتھ گزارنے کے بعد میں نے ان سے کہا کہ میں محض بہانہ کر کے آپ کے ساتھ آپ کا عمل دیکھنے کیلئے آیا تھا اس لئے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 3 مرتبہ فرمایا کہ ابھی ایک جنتی آدمی مسجد میں داخل ہوگا اور تینوں مرتبہ آپ ہی داخل ہوئے لیکن میں نے آپ کا کوئی خاص عمل ایسا نہیں دیکھا جس کی وجہ سے آپ کو اتنی بڑی بشارت ملی ہے۔ انصاری صحابی نے کہا :میں اور تو کوئی خاص عمل نہیں کرتا لیکن رات کو جب سوتا ہوں تو میرے دل میں کسی بھی مسلمان کیلئے کوئی کینہ نہیں ہوتا، سب کے لیے میرا دل بالکل صاف ہوتا ہے۔ عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ کی یہی تو وہ خوبی ہے جس کی وجہ سے آپ کو اتنی بڑی بشارت ملی اور ہم اس سے محروم ہیں ۔
ہر مسلمان کیلئے بالعموم اور رشتہ داروں کیلئے بالخصوص اپنے دلوں کو ہر طرح کے حسد بغض اور کینہ سے پاک رکھنا چاہیے۔ دل کی طہارت اور پاکیزگی ہی دراصل اعمال کی طہارت اور پاکیزگی کا ذریعہ ہے۔ارشادِ ربانی ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی۔
" جس نے اپنے دل کو( تمام آلائشوں سے) پاک کیا وہ کامیاب ہوگیا۔ "(الاعلیٰ14)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"دل بادشاہ ہے اور اعضاء وجوارح اس کا لشکر ہیں۔ بادشاہ اگر صحیح سلامت رہے تو اس کا لشکر بھی صحیح اور درست رہے گا۔ بادشاہ ہی بگڑ جائے تو سارا لشکر بگڑ جاتا ہے اس لئے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سنو! جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے ،وہ سیدھا ہوجائے تو سارا جسم سلامت رہتا ہے، اس میں بگاڑ اور فساد پیدا ہوجائے تو سارے جسم میں فساد پھیل جاتا ہے۔ سنو ! وہ دل ہے۔ "
یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں سب سے اہم ہدف دلوں کی اصلاح اور تزکیہ نفس ہوتا ہے۔
دور حاضر میں دلوں کا بگاڑ اور فساد تیزی سے بڑھتا جارہا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ باہمی عداوت، انتقامی کارروائیاں، لڑائیاں اور جھگڑے، قطع تعلق اور ناراضگیاں، معمولی باتوں پر آپے سے باہر ہو کر ظلم و زیادتی کرنا، غصہ اور جھن جھلاہٹ،گالی گلوچ اور اس طرح کی برائیاں معاشرے کا کلچر بنتا جارہا ہے۔ قریبی رشتہ داروں اور پڑوسیوں میں باہمی معاملات بگاڑ کا شکار ہوتے جارہے ہیں اور سلام دعا بھی ترک کر دیتے ہیں۔ قصور معاف کرنا اورصبر و برداشت سے کام لینا مسلمان کی بنیادی صفات ہیں جن سے ہم محروم ہوتے جارہے ہیں اور سمجھتے نہیں کتنا بڑا نقصان کر رہے ہیں۔ بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"بہادر وہ نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے، بہادر تو وہ ہے جو غصے پر قابو رکھتا ہو۔ "
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
" غصہ وہ آندھی ہے جو دماغ کا چراغ بجھادیتا ہے۔ "
یہی وجہ ہے کہ غصے کی حالت میں جو کام بھی کیا جاتا ہے دوسروں سے زیادہ اپنا نقصان ہوتا ہے۔ عفو و درگزر یعنی لوگوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرنا اور لوگوں کے قصور معاف کردینا اس کی قرآن و سنت میں بار بار تاکید کی گئی ہے اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے بڑے بڑے قصور معاف فرمائے اور کسی سے کبھی کوئی انتقام نہیں لیا۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کے ساتھ بھائیوں نے کیسی کیسی زیادیاں کیں لیکن جب وہ مصر کے بادشاہ تھے، بھائیوں کے خلاف جو چاہتے کرسکتے تھے لیکن اس کے بجائے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ دراصل شیطان نے ہمارے درمیان عداوت ڈال دی تھی اور تم لوگوں نے جہالت کی وجہ سے ایسا کیا تھا، میں تمہارے سارے قصور معاف کرتاہوں، کسی بھی قصور کا بدلہ نہیں لوں گا۔
اللہ کے بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" ہر پیر اور جمعرات کو بندوں کے اعمال اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں سوائے اُن 2 آدمیوں کے جن کے درمیان ناراضگی ہو ۔کہا جاتا ہے: ان کے معاملے کو رہنے دو تاآنکہ وہ آپس میں صلح صفائی کرلیں۔ "
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
" 3 طرح کے لوگ ہیں جن کی نماز قبولیت کے لئے ان کے سر سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں اٹھتی،ایک وہ حکمران جس کی عوام اس سے ناراض ہو، دوسرے وہ عورت جس نے رات اس حال میں گزاری کے اس کا شوہر اس سے ناراض تھا، تیسرے وہ بھائی جو آپس میں قطع تعلق کرلیں۔" (ابن ماجہ )۔
یہاں سوال یہ نہیں کہ کون حق پر ہے اور کون ناحق ،فیصلہ تو حقیقت میں اللہ کی عدالت میں ہوگا۔ مسئلہ یہ ہے کہ قطع تعلق اور سلام دعاترک کرنا کسی حال میں بھی جائز نہیں، یہ سب سے بڑا گناہ ہے جس کی وجہ سے بندوں کے اعمال رب کے حضور پہنچتے ہی نہیں، قبول کیونکر ہوں گے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" جو بندہ حق پر ہونے کے باوجود نزاع اور جھگڑا ختم کرنے کیلئے اپنے حق سے دستبردار ہوجائے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ "
کیا ہم اتنی بڑی بشارت پر اپنے دل کی تنگی میں کچھ وسعت پیدا کرسکتے ہیں ؟
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تعلقات کا بگاڑ مونڈھ دینے والی چیز ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کے جس طرح استر(ا یا بلیڈ )بال مونڈھ کر صاف کردیتا ہے اُس طرح تعلقات کی خرابی دین کو مونڈھ کر رکھ دیتی ہے۔ (العیاذ بااللہ ) یہی وجہ ہے کہ ان تمام خصلتوں کو حرام قرار دیا گیا ہے جو تعلقات کو بگاڑنے کا سبب بنتی ہیں۔ جیسے غیبت اور چغلی ، حسد اور بغض ، جھوٹ اور بددیانتی ، غصہ اور نفرت، تمسخر،استہزاء، بدگمانی اور بدخوئی ، غرور و تکبر، زیادتی اور ناانصافی، ناپ تول میں کمی ، دھوکا دہی اور جعلسازی وغیرہ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر برائی سے بچائے رکھے،آمین۔