سعودی عرب کے میڈیکل کالجوں کو بند کردیا جائے
احمد صالح حلبی ۔ مکہ
یہ تسلیم ہے کہ سعودی جامعات میں میڈیکل کی فیکلٹیاں زبردست وسائل سے مالا مال ہیں۔تدریسی عملہ اعلیٰ لیاقت سے آراستہ ہے۔ ان میں لیباریٹریاں ، عالمی مراکز کی ہمسر ہیں۔ اسکے باوجود میرا کہنا یہ ہے کہ سعودی جامعات کے میڈیکل کالجوں میں برسہا برس تک زیر تعلیم و تربیت طلباءاس لائق نہیں ہوتے کہ وہ اپنا کام مناسب طریقے سے انجام دے سکیں۔
سعودی میڈیکل کالجوں سے فارغ ہونے والی طالبات او رطلباءکی ا ستعداد کتنی ہے اور کتنی نہیں اس کا فیصلہ کرنےوالا میں نہیں۔ یہ فیصلہ ہیلتھ اسپیشل کونسل کرتی ہے۔ اس نے علاج معالجہ کا پیشہ اپنانے کیلئے سعودی لائسنس کی پابندی عائد کررکھی ہے۔ یہ لائسنس امتحان پاس کرنے والوں ہی کو دیا جاتا ہے۔ کونسل کاکہناہے کہ وہ امتحان کیلئے سادہ سے سوالات دیتا ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ سعودی لائسنس حاصل کرنے کیلئے امتحان میں جو سوالنامہ جاری کیا جارہا ہے ان میں سے بعض سوالات ایسے ہیں کہ ان کے جوابات کنسلٹنٹ تک نہیں دے سکتے۔ کالجوں سے فارغ ہونے والی طالبات اور طلباءانکے جواب دے ہی نہیں سکتے۔
ہیلتھ اسپیشل کونسل کے سوالات نے وزارت صحت کو یہ موقع فراہم کردیا کہ وہ اپنی مرضی سے بیرون مملکت سے خواتین اور مرد ڈاکٹر جتنے چاہے اپنی مرضی سے درآمد کرلیں۔اگر سعودی میڈیکل کالجوں سے فارغ ہونے والے لڑکے اور لڑکیاں امتحان پاس کر بھی لیں تو وزارت صحت کے ایوانوںمیں ان کی تقرری ناممکن ہے۔ ایک مقامی اخبار نے اس حوالے سے جو اعدادوشمار جاری کئے ہیں وہ اسکا بڑا ثبوت ہیں۔مقامی اخبار کا کہناہے کہ روزگار کے متلاشی سعودی اطباءکی تعداد 5967ہے۔سعودی اسپیشلسٹ ہیلتھ کونسل کے نائب سیکریٹری جنرل ڈاکٹر سلیمان العمران کا کہناہے کہ یہ اعدادوشمار درست نہیں۔ زمینی حقائق سے انکا کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے العربیہ چینل سے گفتگو میں کہا کہ روزگار کے متلاشی سعودی ڈاکٹروں کی تعداد 440ہے۔ یہ ایم بی بی ایس ہیں اور تقریباً 5ایسے ہیں جو ماسٹرز کئے ہوئے ہیں۔ ان سب کیلئے ملازمتیں مہیا ہیں تاہم یہ مخصوص مقامات پر ہی ملازمت چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر العمران نے اس دعوے کی تردید کردی کہ ایم بی بی ایس ہولڈر کو ملازمتوں کی قلت کا سامنا ہے۔
اگر ہم مذکورہ اعدادوشمار کو غلط مان لیں یہ بھی تسلیم کرلیں کہ ایم بی بی ایس پاس ڈاکٹر صحیح معنو ںمیں کام کرنے کے لائق نہیں ہیں تو کیا ہم ڈینٹل کالجوں سے فارغ نوجوانوں کو بھی انہی کی صف میں شامل کریں؟
دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ڈینٹل کالج سے فارغ ہونے والی سعودی لڑکیوں او رلڑکوں کی مصیبت ایم بی بی ایس والوں سے کسی طرح کم نہیں۔ دونوں موجودہ صورتحال کی گتھی سلجھانے کےلئے بے قرار ہیں۔ وزارت صحت تمام تر عہد و پیمان کے باوجود غیر ملکی ڈاکٹر درآمد کئے چلی جارہی ہے۔ اس کے باوجود وزارت صحت و وزارت محنت و سماجی بہبود نے ایک معاہد ہ کیاکہ باہر سے ڈینٹسٹ کی درآمد پر پابندی عائد کردی جائے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے عالم میں جبکہ وزارت صحت کی کلینکس غیر ملکی ڈینٹسٹ سے بھری ہوئی ہےں، ایسے عالم میں درآمد پر پابندی کے کیا معنی ہیں؟
کیا بہتر نہیں ہوگا کہ ڈینٹل کالج پر حرف تنسیخ پھیر دیا جائے۔ ان میں طلباءو طالبات کو داخلے نہ دیئے جائیں۔ایم بی بی ایس کی تعلیم دینے والے کالجوں پر بھی تالے ڈال دیئے جائیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہیلتھ سائنس کے کالجوں سے فارغ ہونے والے طلباءو طالبات کا حال ایم بی بی ایس اور ڈینٹسٹ سے کسی طرح کم ہوگا۔خلیجی چینل روتانا نے انکے مستقبل کے حوالے سے بہت سارے سوالات اٹھائے ہیں۔ میرا کہنایہ ہے کہ اگر ایم بی بی ایس کرنے ، ڈینٹل کالجوں اور ہیلتھ سائنس کالجوں سے فارغ ہونے والوں کو ملازمتیں نہیں مل ر ہیں ایسے عالم میں وزیر تعلیم ڈاکٹر حمد آل الشیخ سے میں یہی مطالبہ کرونگا کہ وہ مملکت کے میڈیکل کالج بند کرنے کا فیصلہ صادر کردیں تاہم اس فیصلے سے قبل ایک ورکنگ کمیٹی تشکیل دیں ۔ یہ کمیٹی وزارت تعلیم، وزارت صحت اور ہیلتھ اسپیشلسٹ کے نمائندوں پر مشتمل ہو۔ ٹیم کے ارکان ٹھوس بنیادوں پر اس امر کا پتہ لگائیں کہ آخر میڈیکل کالجو ںکے طلباءوطالبات ہیلتھ اسپیشلسٹ کے امتحان میں کیوں لڑکھڑا رہے ہیں اور آخر وزارت صحت انکی تقرری سے کیوں دامن جھاڑ رہی ہے۔وجہ اگر مضامین کا غیر معیاری ہونا ہے جسے کوئی بھی سمجھدار انسان قبول نہیں کرسکتا کیونکہ سعودی میڈیکل کالج عالمی صنعت پا چکے ہیں پھر بہتر یہی ہوگا کہ ایسے کا لج بند کردیئے جائیں۔ ان پر دولت، وقت کا ضیاع بند کردیا جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭