شام کی تعمیر نو میں بڑا سرمایہ لگانے میں چین کی دلچسپی
چین مشرق وسطی اور خاص طور پر شام کے بحران سے اب تک الگ تھلگ رہا ہے ۔ اس نے کبھی خود کو خطے کے مسائل میں نہیں الجھایا مگر اب جبکہ شام کا بحران حل ہوتا نظر آرہا ہے تو چینی سفارتکاری بھی متحرک ہوگئی ہے۔شام کی تعمیر نومیں اسے بڑا حصہ لینے کی خواہش ہے۔
امریکی جریدے مانیٹر میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق شام میں جنگ کے اختتام کے ساتھ عالمی سرمایہ کار تعمیر نو کے مختلف منصوبوں میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان سرمایہ کاروں میں چین سرفہرست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین واحد ملک ہے جو معاشی طور پر انتہائی مستحکم اور سیاسی اعتبار سے خطے میں گہرا اثر ورسوخ رکھتا ہے۔
چین ان چند گنے چنے ممالک میں سے ایک ہے جس نے جنگ کے پورے عرصے کے دوران دار الحکومت دمشق میں اپنا سفارتخانہ کھلا رکھا۔ اس متعدد مواقع میں بشار انتظامیہ کا ساتھ بھی دیا۔ سلامتی کونسل میں کئی مرتبہ بشار انتظامیہ کے خلاف فیصلوں کو ویٹو کردیا تھا۔
چین اپنی ضرورت کا تیل مشرق وسطی سے درآمد کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطی میں اس کے اسٹراٹیجک مفادات ہیں۔ وہ افریقہ اور یورپ تک تجارتی رسائی مشرق وسطی کے ذریعہ کرنا چاہتا ہے۔ ابتدائی اندازے کے مطابق شام کی تعمیر نو پر250بلین ڈالر سے زیادہ لاگت آسکتی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے شام کے اسٹیٹ بینک نے اسلامی ترقیاتی بینک سے 86ملین ڈالر کے قرضے حاصل کرلئے ہیں۔
قبل ازیں چین نے جولائی2018میں مشرق وسطی کے لئے 23بلین ڈالر کے قرضوں کا اعلان تھا۔ اس میں سے بڑی رقم شام میں لگائے جانے کا عندیہ دیا گیاہے۔عالمی مالیاتی ادارے کا خیال ہے کہ شام کی تعمیر نو کا کام 20سال میں مکمل ہوگا۔ چین جس طرح خطے میں کامیابی سفارتکاری سے کام لے رہاہے اس سے امید ہے کہ اسے یہاں سرمایہ کاری کے بڑے مواقع حاصل ہوں گے۔
سوال یہ ہے کہ کیا چین ، شام میں سیاسی حل اور نزاع کے مکمل خاتمے سے پہلے سرمایہ لگانے کی مہم جوئی کا مرتکب ہوگا کیونکہ جب تک بحران کا مکمل حل نہیں کیا جاتا کوئی بعید نہیں کہ کسی بھی وقت نزاع دوبارہ پیدا ہوجائے۔