زین الدین احمد۔ کوئٹہ
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہزارہ برادری نے دہشت گردی کے خلاف چار روز سے جاری دھرنا حکومت سے مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد ختم کردیا ہے۔
پیر اور منگل کی درمیانی شب وزیرمملکت شہریار آفریدی اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی قیادت میں وفاقی اور صوبائی حکومت مذاکرات کے لیے کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پہنچے تھے۔ ان کے ہمراہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری،وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی زلفی بخاری، بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیائلانگو اور رکن صوبائی اسمبلی لیلیٰ ترین بھی تھیں۔
حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بعد دھرنے کے منتظم اور’ہزارہ سیاسی کارکنان‘ نامی تنظیم کے رہنما طاہر خان ہزارہ نے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’حکومتی وفد میں شامل خاتون رکن اسمبلی کی خاطر ہم اپنا دھرنا ختم کررہے ہیں۔ قبائلی روایات میں خاتون کی جرگے کے ہمراہ آمد پر خون تک معاف کردیے جاتے ہیں۔‘
طاہر ہزارہ کا کہنا تھا کہ ’ہزارہ برادری 20 سالوں سے عدم تحفظ کا شکار ہیں اور انہیں تسلسل کے ساتھ نشانہ بنایا جارہا ہے۔ احتجاج کا مقصد حکومت کو اپنے خدشات اور مسائل سے آگاہ کرنا تھا۔ ہم حکومت سے امن اور تحفظ کے لیے ٹھوس ضمانت چاہتے ہیں۔‘
ہزارہ برادری کے سینکڑوں افراد نے یہ احتجاج جمعے کو کوئٹہ کی ہزار گنجی سبزی منڈی بم دھماکے کے بعد شروع کیا تھا جس میں ہزارہ برادری کے دس افراد سمیت 20 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ دھرنے میں خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد شریک تھی۔ شرکا کا مطالبہ تھا کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان خود کوئٹہ آکر انہیں تحفظ کی ضمانت فراہم کریں۔
مذاکرات کے موقع پر دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے وزیرمملکت برائے داخلہ شہریار خان آفریدی نے ہزارہ برادری کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے کی یقین دہانی کرائی۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہزارہ برادری سمیت ہر شہری کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔ ہزارہ برادری کو تنہاء نہیں چھوڑیں گے۔
شہریار آفریدی نے کہا کہ ’ہمیں آپ کے مسائل اور مطالبات کا علم ہیں ہم آپ انہیں حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں گے۔ یہ سوچ درست نہیں کہ دہشتگردی میں ملوث افراد کو گرفتار نہیں کیا گیا یا انہیں سزائیں نہیں دی گئیں۔ ہم سکیورٹی اداروں کی اس سلسلے میں کامیاب کارروائیوں کی تفصیلات بتانے کے لیے بھی تیار ہیں۔‘
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے بھرپور کوشش کی ہے کہ اس شہر اور صوبے کو محفوظ بنائیں۔ قیام امن کے لیے اس طرح کی سنجیدگی ماضی میں نہیں ملتی جو موجودہ حکومت دکھا رہی ہے۔ چیزوں کو درست کرنے میں وقت لگتا ہے۔‘
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’اس شہر اور صوبے کے لوگوں بالخصوص ہزارہ برادری نے بڑی مشکلات دیکھی ہیں۔ہزارہ برادری کے تمام مسائل کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔‘
اس سے قبل وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کوئٹہ کے ہزار ٹاؤن گئے جہاں انہوں نے ہزار گنجی بم دھماکے میں ہلاک ہونیوالے افراد کے لواحقین اور ہزارہ برادری کے عمائدین سے تعزیت کا اظہار کیا۔ اس موقع پر نیوز کانفرنس میں شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ دشمن پاکستان کو زبان، مذہب،مسلک اور علاقائیت کے نام پر غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ ریاست نہ صرف ہزارہ برادری بلکہ پاکستان کے ہر شہری کے عزت، جان و مال کا تحفظ دے گی اور ان کے قتل میں ملوث ملزمان کو سزا بھی دے گی۔
شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ ایران اور افغانستان کی سرحد کے ساتھ باڑ لگانے کا کام شروع کیا گیا ہے اس کی تکمیل سے امن وامان میں بہتری آئے گی۔