Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سکند راعظم کے مجسمے پر تین دہائیوں کی بیوروکریسی

سکندر اعظم کو دنیا کے مشہور ترین فاتحین میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جو چھوٹی سی عمر میں اپنے عزیز ترین گھوڑے بیوسیفیلس پرجنگی مہم جوئی کے لیے نکلے اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا،تاہم آج یہ حالت ہے کہ بیوروکریسی کے جھگڑوں کے باعث ان کا مجسمہ لگانے میں تقریباًتین دہائیاں بیت گئیں۔
بلاآخر 27 برس کے التوا کے بعدجمعے کو یونان کے دارلحکومت ایتھنز میں اپنے محبوب گھوڑے پر سوار نوجوان سکندر اعظم کا تانبے سے بنا 3.5 میٹر لمبامجسمہ شہر کے وسط میں لارڈ بائرن کے مجسمے کے سامنے کھڑا کر دیا گیا ہے۔
خبررساں ادارے اے ایف پی نے ایتھنز انتظامیہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مجسمہ  1972 میں مکمل ہو گیا تھااور اسے ریاست نے 1992 میں ایک ایسے وقت میں اپنی تحویل میں لے لیا تھاجب مقدونیہ کے نام پر قوم پرستوں کے جذبات عروج پر تھے۔ 
ایتھنز کے مئیر جارج کمینیس نے کہا کہ ’مجسمے کو لگانے کا فیصلہ  2015میں ہوچکا تھا جو بیوروکریسی کی سستی کی علامت بن گیا۔‘
شمالی یونان کے علاقے مقدونیہ میں پیدا ہونے والے چوتھی صدی قبل مسیح کے جنگجو بادشاہ یونانیوں کے لیے ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں اور یونانی حکومت مقدونیہ پر الزام لگاتی رہی ہے کہ اس نے تاریخی ورثے پر قبضہ کر رکھا تھا۔
ایک صدی قبل مقدونیہ میں برسراقتدار قوم پرست حکومت نے خود سے سکندر اعظم اور اس کے والدفلپ کے مجسمے کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن رواں برس فروری میں سابق یوگو سلاو یہ ریپبلک کا نام شمالی مقدونیہ رکھ دیا گیا تو تین دہائیوں پرانا جھگڑا بھی ختم ہوگیا۔

شیئر: