لاہور میں کتب میلہ: ’لان سیل ہوتی تو اب تک شیشے بھی ٹوٹ چکے ہوتے‘
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں اپنی طرز کا انوکھا اور دنیا کا سب سے بڑا کتاب میلہ اس وقت جاری ہے، جس میں لگ بھگ 10 لاکھ کتابیں فروخت کے لیے رکھی گئی ہیں۔
کتابوں کی یہ منڈی ’بگ بیڈ وولف بک سیل‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔
ایکسپو سینٹر کے ہال نمبر تین میں داخل ہوتے ہی آپ کو ہر طرف کتابیں ہی کتابیں نظر آتی ہیں لیکن جو پہلا احساس دامن گیر ہوتا ہے وہ خریداروں کا غیرمتوقع طور پر کم ہونا ہے۔
دس لاکھ کتابوں کے سامنے چند سو افراد۔ تو کئی طرح کے سوال ذہن میں جنم لینا شروع ہوتے ہیں ۔ جدید ٹیکنالوجی سے لیس درجنوں کیش کاؤنٹرز کے ساتھ ایک کاؤنٹر ’بگ بیڈ وولف بک سیل‘ کے ماہرین کا بھی ہے جو سر جوڑے بیٹھے ہیں۔
’بالکل بھی سمجھ نہیں آرہی کہ ہم سے غلطی کہاں پر ہوئی ہے‘، سیل کے منیجنگ ڈائریکٹر اینڈریو یاپ نے گلا صاف کرتے ہوئے بتانا شروع کیا۔ ’اس سے پہلے ہم سری لنکا اور میانمار جیسے ترقی پذیر ممالک میں بھی سیل لگا چکے ہیں اور لوگ کتابوں کی خریداری کے لیے ایسے آتے تھے جیسے ان کی زندگی کا آخری دن ہو۔‘
مسٹر یاپ نے بتایا کہ ہر سیل پر ان کو منفرد تجربے ہوتے ہیں اس لیے یہ سیل ہمیشہ ارتقائی عمل میں رہی ہے۔ ’ایک دہائی کے تجربوں کو سمیٹ کر ہم پاکستان میں داخل ہوئے ہیں۔ ایک تو گیارہ دن کے لیے 24 گھنٹے سیل جاری ہے دوسرا ایسے لوگ جو رش سے بچنا چاہتے ہیں ان کے لیے سیل شروع ہونے سے ایک دن پہلے پاسز کے ذریعے انٹری دینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن ابھی تک لاہور میں بہت کم لوگوں نے دلچسپی دکھائی ہے۔‘
اشتہاری حکمت عملی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے لیے ہمارا ایک ہی طریقہ ہے سوشل میڈیا ۔ میانمار جیسے ملک میں ہم نے دیکھا کہ ٹیگنگ کے چین ری ایکشن سے لگتا تھا سارے نوجوان باہر نکل آئے ہیں۔ شاید پاکستان میں لوگ سوشل میڈیا کا استعمال مختلف طریقے سے کرتے ہیں۔ لیکن میں اب بھی پر امید ہوں کہ بالاخر لوگ نکلیں گے۔‘
’بگ بیڈ وولف بک سیل‘ میں ہرطرح کی کتابیں فروخت کے لیے رکھی گئی ہیں۔ ادب، سائنس ،فلسفہ ،سیلف ہیلپ اور صحت قریب ہر موضوع کی کتابوں کے سٹالز موجود ہیں۔ سب سے زیادہ کتابیں بچوں کی ہیں۔ یہ سیل 19 اپریل سے 29 اپریل تک 24 گھنٹے جاری رہے گی۔
سیل کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ وہ نئی کتابیں پچاس سے نوے فی صد تک کی رعایتی قیمتوں پر فروخت کر رہے ہیں۔
صابر عارف جو کہ ایک سماجی کارکن ہیں اور جھونپڑیوں میں رہنے والے بچوں کے لیے سکول چلاتے ہیں، انہوں نے اپنا سٹال سیل کے داخلی راستے پر لگایا ہوا ہے تاکہ وہ خریداروں کو قائل کر سکیں کہ وہ کتابیں بچوں کو عطیہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کی کتابوں سے محبت معدوم ہوتی جا رہی ہے ورنہ لاہور میں میلہ تو سج ہی جاتا تھا بھلے کتابوں کا ہو۔
انھوں نے کہا کہ ’اب لوگوں کا رجحان بدل گیا ہے یہیں اگر لان کی سیل لگی ہوتی تو اس وقت تک ایکسپو کی عمارت کے شیشے بھی رش کی وجہ سے ٹوٹ چکے ہوتے۔‘