Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین انتخابات کے بعد مذاکرات شروع ہونے کی توقع

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ انڈیا میں عام انتخابات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوجائے گا۔

عمران خان چین کے دارالحکومت بیجنگ میں دوسرے روڈ اینڈ بیلٹ فورم میں شریک ہیں، جہاں ان کے علاوہ دنیا کے 40 ممالک کےسربراہان اور 100 سے زائد ممالک، بین الاقوامی تنظیمیں اور کاروباری شعبے کے وفود شریک ہیں۔ 
جمعے کو چین کے دارلحکومت بیجنگ میں وزیراعظم عمران خان نے پاک چین فرینڈشپ ایسوسی ایشن کے ظہرانے سے خطاب میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کا ذکر کیا۔
عمران خان نے کہا کہ’صرف انڈیا کے ساتھ تعلقات میں مسائل درپیش ہیں، لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ انڈین انتخابات کے بعد ہم انڈیا کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کریں گے۔ہم اپنے ہمسائے کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے کیونکہ وہاں عدم استحکام کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ  پاکستان طالبان کی امریکا اور افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کی کامیابی کے لئے بھی کوشاں ہے۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے ایران کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور انہیں مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے بیلٹ اینڈ روڈ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا بنیادی مقصد بین الاقوامی تجارت کے لیے ایک نیا پلیٹ فورم فراہم کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین منصوبے میں شریک ممالک کے ساتھ کیے گئے تجارتی و اقتصادی معاہدوں کو خصوصی اہمیت دیتا ہے اور انہیں پایہ تکمیل تک پہنچائے گا۔
 
عمران خان کی پانچ تجاویز
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے فورم سے خطاب کرتے ہوئے بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے لئے پانچ تجاویز پیش کی ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ وائٹ کالر کرائم دنیا کو تباہ کر رہا ہے، وائٹ کالر کرائم اور کرپشن کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے اور غربت کے خاتمے کے لئے خصوصی فنڈ قائم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور سیاحت کے فروغ کے لئے مشترکہ کوششیں کی جائیں،تجارت اور سرمایہ کاری کے لئے ماحول بہتر بنایا جائے۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور چین سی پیک کے اگلے مرحلے کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں خصوصی اقتصادی زونز قائم کئے جائیں گے۔
 
بیلٹ اینڈ روڈ فورم کیا ہے؟
بیلٹ اینڈ روڈ فورم کو صدر 'شی جن پنگ' کا وژن کہا جاتا ہے جو مستقبل کی معاشی ترقی کے لئے چین کا ایک عظیم الشان منصوبہ ہے۔ ایشیاء سے لے کر یورپ ،افریقا اور لاطینی امریکا تک یہ منصوبہ پھیلا ہوا ہے جس میں دنیا کے چار برّاعظموں کے 60 ممالک شریک ہیں۔ دنیا کی 65 فیصد آبادی ان 60 ممالک میں رہتی ہے۔
اس منصوبے کے تحت چین دنیا تک اپنی رسائی اور تجارت کو فروغ دینے کے لئے 4.8 ٹریلین ڈالرز خرچ کر رہا ہے۔
  
بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں کون سے ممالک شریک ہیں؟
بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں جنوب مشرقی ایشیاء کے 11 ممالک شامل ہیں جن میں روس، منگولیا، انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ، ویتنام، سنگاپور، فلپائن، میانمار، کمبوڈیا، لاؤس، برونائی، مشرقی تیمور شامل ہیں۔
وسطی ایشیاء سے قازقستان،ازبکستان، ترکمانستان، کرغیزستان اور تاجکستان شامل ہیں۔
جنوبی ایشیاء سے پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، افغانستان، نیپال، مالدیپ اور بھوٹان بیلٹ اینڈ روڈ فورم کا حصہ ہیں۔
مغربی ایشیائی اور شمالی افریقا ممالک سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان، ایران، ترکی، اسرائیل، مصر، کویت، عراق، قطر، اردن، لبنان، بحرین، یمن، شام اور فلسطین شامل ہیں۔
یورپ کے جو ممالک بیلٹ اینڈ روڈ فورم کا حصہ ہیں ان میں پولینڈ، رومانیہ، چیک ری پبلک، سلوواکیہ، بلغاریہ، ہنگری، لیٹویا، لتھوانیا، سلووینیا، اسٹونیا، البانیہ، سربیا، مقدونیہ اور بوسنیا اور ہرزگووینیا شامل ہیں۔
دولت مشترکہ کی چھ ریاستیں یوکرین، آذربائیجان، آرمینیا، بیلارس، جارجیا اور مالڈووا بھی ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں شریک ہیں۔

 

شیئر: